پاکستان کی پہلی وفاقی آئینی عدالت کا پہلا بڑا فیصلہ: پشاور ہائیکورٹ کا حکم معطل

پاکستان کی پہلی وفاقی آئینی عدالت نے اپنے قیام کے بعد اہم نوعیت کے کیسز میں پہلی مرتبہ بڑے فیصلے جاری کیے ہیں۔ عدالت نے خیبرپختونخوا حکومت کی اپیل پر پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے حکمِ امتناع جاری کیا، جبکہ دیگر کیسز میں پنجاب ریونیو ملازمین اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے متعلق اہم احکامات دیے۔

 پشاور ہائیکورٹ کا حکم معطل

پاکستان کی پہلی وفاقی آئینی عدالت نے اپنا پہلا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے خیبرپختونخوا حکومت کی اپیل منظور کر لی اور پشاور ہائیکورٹ کا آجر و اجیر سے متعلق فیصلہ معطل کر دیا۔جسٹس حسن رضوی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جس میں نجی اداروں کی جانب سے مزدوروں کے واجبات اور سکیورٹی ڈیپازٹ کے حوالے سے ہائیکورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔

سماعت کے دوران جسٹس حسن رضوی نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ “غریب مزدور سکیورٹی ڈیپازٹ کی مد میں اتنا پیسہ کہاں سے لائے گا؟”

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل نے بتایا کہ قانون کے مطابق اگر نجی ادارہ مزدور کو نکالتا ہے تو اسے واجبات ادا کرنا ہوں گے، وگرنہ مزدور متعلقہ محکمے میں اپیل کرسکتا ہے۔ ہائیکورٹ نے سکیورٹی ڈیپازٹ کی شرط ختم کی تھی جس کے خلاف حکومت نے اپیل دائر کی تھی۔عدالت نے تمام متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کر دیے اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پر حکم امتناع بھی جاری کر دیا۔

پنجاب ریونیو ڈیپارٹمنٹ

وفاقی آئینی عدالت نے پنجاب ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین کی مستقلی سے متعلق درخواست پر سماعت کی اور درخواست گزاروں کو وکیل مقرر کرنے کی مہلت دے دی۔جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس کے کے آغا نے سماعت کی، دورانِ سماعت درخواست گزار نے اپنی گیٹ انٹری بند ہونے کے خدشات ظاہر کیے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ “آپ اوور سمارٹ نہ بنیں، گیٹ انٹری کے علاوہ بھی بہت کچھ بند ہوسکتا ہے”۔ عدالت نے واضح کیا کہ وکیل مقرر نہ کرنے کی صورت میں درخواست مسترد ہو سکتی ہے۔درخواست گزاروں کی استدعا پر عدالت نے حکم امتناع کے مطالبے کو رد کرتے ہوئے اگلی سماعت پر وکیل کے ساتھ پیش ہونے کی ہدایت دی۔

کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی کیس

وفاقی آئینی عدالت نے وائس چانسلر کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کی تقرری کے خلاف دائر درخواست نمٹا دی۔ عدالت نے قرار دیا کہ یہ کیس سپریم کورٹ میں دائر ہونے کے بعد آٹھ سال تک سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوا، جبکہ موجودہ سماعت میں کوئی بھی فریق پیش نہیں ہوا۔لاہور ہائیکورٹ نے پہلے ہی وائس چانسلر اسد اسلم کو کام جاری رکھنے کی اجازت دے رکھی تھی، جبکہ درخواست گزار نے ان کی تقرری کو چیلنج کیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ اگر کوئی فریق عدالتی حکم سے متاثر ہوتو وہ دوبارہ رجوع کر سکتا ہے۔

وفاقی آئینی عدالت کا باضابطہ آغاز

اس سے قبل پاکستان کی پہلی وفاقی آئینی عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے کمرہ عدالت نمبر دو میں پہلی سماعت کا آغاز کیا۔
پہلی سماعت کرنے والا بینچ چیف جسٹس امین الدین، جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس ارشد حسین شاہ پر مشتمل ہے۔
یہ تاریخی لمحہ ملک میں آئینی معاملات کے مستقل حل کے لیے ایک نئے عدالتی فورم کا عملی آغاز ہے۔

Comments are closed.