اسلام آباد: حکومت پاکستان نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے باضابطہ درخواست کی ہے کہ وفاقی بجٹ میں مختص 389 ارب روپے کے ایمرجنسی فنڈز کو سیلاب متاثرین کی ریکوری اور بحالی کے لیے وزیراعظم پیکج کے طور پر منظور کیا جائے۔ اس پیکج کا مقصد متاثرہ عوام کو فوری ریلیف، عارضی رہائش، بنیادی ڈھانچے کی بحالی اور زرعی شعبے کو سہارا دینا ہے۔
صوبوں کے نقصانات کا تخمینہ
ذرائع کے مطابق خیبرپختونخوا نے 40 سے 50 ارب روپے کے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ لگایا ہے جبکہ سندھ نے تقریباً 40 ارب روپے کے نقصانات رپورٹ کیے ہیں۔ بلوچستان کو اس بار بڑے پیمانے پر نقصان نہیں پہنچا جبکہ پنجاب کے ساتھ آج مذاکرات شیڈول ہیں، جس کے بعد حتمی اعداد و شمار سامنے آئیں گے۔
آئی ایم ایف کی شرائط
آئی ایم ایف نے پاکستان سے صرف مالی رپورٹ ہی نہیں بلکہ نیڈ بیسڈ اسیسمنٹ رپورٹ بھی طلب کی ہے۔ اس کے علاوہ گورننس اور کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ رپورٹ جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کی گئی ہے کہ ملٹری اور جوڈیشل افسران سمیت سول بیوروکریسی کے اثاثے عوام کے سامنے لائے جائیں تاکہ شفافیت یقینی بنائی جا سکے۔
معیشت پر اثرات
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب نے پاکستان کی معیشت کو سخت دھچکا دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں رواں مالی سال جی ڈی پی گروتھ 4.2 فیصد سے کم رہنے کا خدشہ ہے۔ زرعی زمینوں کی تباہی، پلوں اور سڑکوں کی بربادی اور غذائی اجناس کی قلت مہنگائی اور روزگار کے مسائل کو مزید بڑھا سکتی ہے۔
وفاقی و صوبائی مذاکرات
وزارت خزانہ نے سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات مکمل کر لیے ہیں۔ چونکہ بلوچستان کو نقصان محدود ہوا ہے، اس لیے ریلیف فنڈ کا زیادہ حصہ دیگر متاثرہ صوبوں کو دیا جائے گا۔ پنجاب کے ساتھ آج مذاکرات ہوں گے جس کے بعد وزیراعظم پیکج کے تحت حتمی ریلیف منصوبہ سامنے لایا جائے گا۔
پس منظر اور عالمی تناظر
گزشتہ برس کے دوران شدید مون سون بارشوں اور سیلاب نے پاکستان میں لاکھوں افراد کو متاثر کیا۔ ہزاروں گھر تباہ ہوئے اور لاکھوں ایکڑ زرعی زمین زیر آب آ گئی۔ ماہرین موسمیاتی تبدیلی کو ان مسائل کی اصل وجہ قرار دیتے ہیں۔ عالمی ادارے زور دے رہے ہیں کہ پاکستان کو شفافیت، بہتر گورننس اور موسمیاتی ایڈاپٹیشن حکمت عملی اپنانا ہوگی تاکہ مستقبل میں ایسے بحرانوں کے اثرات کم کیے جا سکیں۔
Comments are closed.