پشاور : پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم ایک تحریک تھی اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی، جب محسوس ہوا کہ دفاعی نظام میں عدم استحکام آرہا ہے تو چیئرمین پی ٹی آئی سے ہاتھ اٹھا لیا گیا، دبئی میں ہونے والے ملاقاتوں میں پی ڈی ایم کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا۔
پشاور میں سینئر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے امیر جمعیت علمائے اسلام ف مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ یہ سوال پی ڈی ایم میں موجود ہے کہ مسلم لیگ ن نے اب تک اتحاد میں شامل جماعتوں کو دبئی میں ہونے والی ملاقاتوں کے حوالے سے اعتماد میں کیوں نہیں لیا۔ دبئی مذاکرات اچانک نہیں بلکہ منصوبہ بندی سے ہوئے اس لیے سب کواعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا۔ پی پی ہمارے اتحاد کا حصہ نہیں اس لیے دبئی مذاکرات کے بارے میں نہیں پوچھ سکتے۔پی ڈی ایم ایک تحریک تھی اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عام انتخابات وقت پر ہوں گے، جلد مرکز، سندھ اوربلوچستان میں نگران حکومتیں قائم آ جائیں گی، ملک میں معیشت بہتر ہونا شروع ہو گئی ہے۔عمران خان امریکا کوگالی بھی دیتاہے اور اس سے یاری بھی گانٹھی جارہی ہے، عجیب بات ہے کہ وہ عالمی برادری جو قران پاک کی توہین کرتی ہے وہی چیئرمین پی ٹی آئی کی حمایت بھی کرتی ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سی پیک اورسرمایہ کاری روکتا ہے اس کے قول وفعل میں تضاد ہے، جب محسوس ہوا کہ دفاعی نظام میں عدم استحکام آرہا ہے تو چیئرمین پی ٹی آئی سے ہاتھ اٹھا لیا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی کو را اور موساد کی سپورٹ حاصل تھی اور آج بھی حاصل ہے۔امید ہے کہ قوم عام انتخابات میں اس فتنے سے ملک کومحفوظ رکھے گی۔
امیر جے یو آئی ف کا کہنا تھا کہ ہم 2018 اتخابات کے بعد اسمبلیوں کی رکنیت کاحلف نہیں اٹھاناچاہتے تھے تاہم اپوزیشن جماعتوں کی وجہ سے ایساکرنا پڑا۔ ہمارے لیے بے شمارمشکلات پیداکی گئیں مگر ہم نے تحمل سے کام لیا۔ ہم چیئرمین پی ٹی آئی کی حکومت کونہیں ہٹاناچاہتے تھے تاہم اپوزیشن کا ساتھ دینے کے لیے ان کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ فوج ایک ادارہ ہے جس سے اختلاف ممکن نہیں البتہ شخصیات سے اختلاف ہوسکتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جنرل فیض حمید نے مجھے ملاقات کے لیے بلایا لیکن میں نہیں گیا، جب میں نہیں گیا تو وہ خود ملاقات کے لیے آگئے، فیض حمید نے ملاقات میں تین باتیں کیں کہ میں آپ کو سینٹ کا رکن اور پھر چیئرمین دیکھنا چاہتا ہوں آپ نے سسٹم کے اندر تبدیلی لانی ہے، میں نے انکار کر دیا اور اس کے بعد اپوزیشن کو تقسیم در تقسیم کر دیا گیا، برطانوی سفیر نے کہا گرفتاریوں پر تشویش ہے، میرا جواب تھا اگر اپ کی پارلیمنٹ پرحملہ ہوتا تو کیا کرتے، گرفتاریوں پر آپ کو تشویش اس وقت ہوتی جب ایک بیٹی کو باپ سے نہیں ملنے دیا جا رہا رہا تھا ۔
Comments are closed.