اسلام آباد : چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے نیب ترامیم کیس کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ ملک میں شدید سیاسی تنائو اور بحران ہے۔تمام مسائل کا حل عوام کے فیصلے سے ہی ممکن ہے۔موجودہ پارلیمنٹ دانستہ طور پر نامکمل رکھا گیا ہے۔موجودہ پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی بھی متنازع ہو رہی ہے۔تحریک انصاف نے پہلے پارلیمنٹ چھوڑنے کی حکمت عملی اپنائی۔اب پتہ نہیں کیوں پھرپارلیمنٹ میں واپسی کا فیصلہ کرلیا۔کیوں ناں عمران خان کو بلا کرپوچھا جائےکہ اسمبلی نہیں جانا تو الیکشن کیوں لڑ رہے ہیں۔
دوران سماعت وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کا نیب ترامیم پرعمران خان کے حق دعوی نا ہونے پر دلائل دیتے ہوئے کہا عدالت آرٹیکل 184 تھری پر محتاط رہے۔آرٹیکل 184 تھری کے تحت کسی بھی درخواست پر قانون سازی کالعدم قرار دے گی تو معیار گر جائے گا۔
اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا موجودہ کیس کے حقائق مختلف ہیں۔ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ نے نیب ترامیم چیلنج کی ہیں۔درخواست گزار عمران خان کوئی عام شہری نہیں ہیں۔عمران خان کے حکومت چھوڑنے کے بعد بھی بڑی تعداد میں عوام کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ اب عمران خان اسمبلی میں نہیں ہیں اور نیب ترامیم جیسی قانون سازی متنازع ہو رہی ہے۔ اس کیس میں عمران خان کا حق دعوی ہونے یا نا ہونے کا معاملہ نہیں بنتا۔عدالت بھی قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔ عدالت نے کوئی ازخود نوٹس نہیں لیا بلکہ نیب ترامیم کے خلاف درخواست آئی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں ایک ہی وزیراعظم آئے تھے جو بہت دیانت دار سمجھے جاتے تھے۔ ایک دیانت دار وزیراعظم کی حکومت 58 ٹو بی کے تحت ختم کی گئی تھی۔ آرٹیکل 58 ٹو بی ڈریکونین لاء تھا۔موجودہ حکومت کے قیام کو 8 ماہ ہو چکے۔الیکشن کمیشن نے اسپیکر رولنگ کیس میں کہا تھا کہ نومبر 2022 میں عام انتخابات کرانے کے لیے تیار ہوں گے۔
مخدوم علی خان نے کہا ایک عدالت جمہوریت نہیں بچا سکتی۔40 سال پہلے ایک بین القوامی اخبار میں آرٹیکل لکھا گیا۔ آرٹیکل کے مطابق لوگ سیاستدانوں کو اپنی پہچان چاہتے ہیں نا ہی ججز سے حکومت کرانا۔ عدالت حکومت نہ کرے۔
جیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کوئی حکومت کرنا نہیں چاہتی۔عدالت ازخود نوٹس کے اختیار میں محتاط رہی ہے۔سیاسی خلا عوام کے لیے کٹھن ہوتا ہے۔ جب سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے تو عدالت کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ عوام کرپشن سے پاک حکومت چاہتی ہے۔
Comments are closed.