سینیٹ میں 27ویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کا عمل شروع ہو گیا ہے، جہاں اب تک 59 شقیں کثرتِ رائے سے منظور کر لی گئی ہیں۔ ایوان میں حکومتی اراکین کی حمایت اور اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود قانون سازی کا عمل جاری ہے۔
شق وار منظوری کا عمل جاری
اسلام آباد میں سینیٹ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27ویں آئینی ترمیم منظوری کے لیے پیش کی۔ چیئرمین سینیٹ نے شق وار منظوری کے عمل کا آغاز کیا اور حامی اراکین کو نشستوں پر کھڑے ہونے کی ہدایت کی۔ اس دوران ایوان میں شور شرابہ ہوا، تاہم قانون سازی کا عمل جاری رہا۔
اپوزیشن کا احتجاج اور ایوان میں ہنگامہ آرائی
ترمیم کی پیشی کے بعد اپوزیشن نے احتجاج کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ سینیٹر روبینہ ناز کے اصرار کے باوجود پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو احتجاج میں شریک نہیں ہوئے، جس پر اپوزیشن کی صفوں میں اختلاف نمایاں رہا۔
اعظم نذیر تارڑ کا اظہارِ خیال
وزیر قانون نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “میثاقِ جمہوریت میں آئینی عدالت کا قیام بنیادی نکتہ تھا۔” انہوں نے بتایا کہ مشترکہ کمیٹی اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں نے تجاویز دیں، اور ترمیم کی تیاری میں بھرپور شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ متوازی نہیں بلکہ آئینی عدالت ہے، جو نظامِ انصاف کو مزید مضبوط بنائے گی۔”
سیاسی جماعتوں کی حمایت اور مخالفت
دلچسپ طور پر پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو اور جے یو آئی (ف) کے سینیٹر احمد خان نے آئینی ترمیم کی حمایت کی۔ حکومتی اتحاد کے علاوہ ان دو اپوزیشن سینیٹرز کا حمایت میں کھڑا ہونا ترمیم کے لیے اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
غیر حاضر ارکان اور اعتراضات
سینیٹر عرفان صدیقی اور جان محمد بلیدی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ سینیٹر ہمایوں مہمند نے سینیٹ میں اراکینِ قومی اسمبلی کی موجودگی پر اعتراض اٹھایا، تاہم چیئرمین سینیٹ نے کارروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
پس منظر اور سیاسی اہمیت
27ویں آئینی ترمیم کو ملک کے عدالتی ڈھانچے میں ایک بڑی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے، جس کے ذریعے آئینی عدالت کے قیام کی راہ ہموار ہوگی۔ اس اقدام کو میثاقِ جمہوریت کے تسلسل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، تاہم اپوزیشن کے کئی حلقوں نے اس پر شفافیت اور جلد بازی کے خدشات ظاہر کیے ہیں۔
Comments are closed.