اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اینتونیو گوتریس نے کہا ہےکہ طالبان نے افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام اجلاس میں شرکت کے لیے ناقابل قبول شرائط پیش کیں۔
قطر میں دو روزہ اجلاس کے اختتام پر گوتریس نے کہا کہ طالبان کے مطالبات میں دوحہ قطر میں ہونے والے مذاکرات سے سول سوسائٹی کے ارکان کا اخراج اور ایسا برتاؤ شامل تھا جو طالبان کو باضابطہ طور پر ملک کے جائز حکمران کی حیثیت سے تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔
طالبان نے 2021 میں اس وقت اقتدار پر قبضہ کیا تھا جب امریکی اور نیٹو افواج دو دہائیوں کی جنگ کے بعد افغانستان سے واپس چلی گئی تھیں۔ اب تک کسی بھی ملک نے طالبان کو افغانستان کی حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے اور اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر طالبان کی عائد کردہ پابندیاں برقرار رہتے ہوئے تسلیم کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
دوحہ میں دو روزہ اجلاس میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک اور خصوصی سفیر اکٹھے ہوئے۔ لیکن طالبان نے شرکت نہیں کی کیونکہ ان کے مطالبات پورے نہیں ہوئے تھے۔
گوتریس نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا، ’’مجھے (طالبان کی طرف سے) ایک خط موصول ہوا جس میں اس میٹنگ میں شرکت کے لیے کچھ شرائط تھیں جو قابل قبول نہیں تھیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ “ان مطالبات میں افغان معاشرے کے دوسرے نمائندوں سے بات کرنے کے ہمارے حق سے انکار اور ایک ایسے طرز عمل کا مطالبہ کیا گیا تھا جو بڑی حد تک انہیں تسلیم کرنے کے مترادف ہوتا ۔”
اگرچہ گوتریس نے طالبان کی عدم موجودگی سے اس عمل کو کوئی نقصان پہنچنے کی تردید کی تاہم کہا کہ ان کے ساتھ میٹنگ کے نتائج پر بات کرنا مفید ہوتا۔
ان کا مزید کہنا تھا ،”آج ایسا نہیں ہوا۔ مستقبل قریب میں ایسا ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ ہم طالبان کو شرکت کو ممکن بنانے کے لیے کوئی حل تلاش کر لیں گے۔‘
Comments are closed.