واشنگٹن: امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ہفتے کے روز صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ مظاہرہ واشنگٹن کے نیشنل مال پر منعقد کیا گیا، جبکہ ملک کے دیگر بڑے شہروں اور دنیا کے مختلف حصوں میں بھی اسی نوعیت کے احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے۔
یہ احتجاج صدر ٹرمپ کے ممکنہ طور پر وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپسی کی راہ ہموار ہونے کے بعد پہلا بڑا اور منظم مظاہرہ تھا۔ مظاہرین نے انہیں امریکی تاریخ میں “سب سے ڈھٹائی سے اقتدار پر قبضہ کرنے والا رہنما” قرار دیا۔
اس احتجاج میں امریکی اپوزیشن سے وابستہ درجنوں بائیں بازو گروہوں نے شرکت کی، جن میں ’موو آن‘ اور ویمن مارچ جیسے نمایاں گروپ شامل تھے۔ ان تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ امریکہ بھر کے کم از کم 1000 سے زائد شہروں اور قصبوں میں صدر ٹرمپ کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔
عالمی سطح پر مزاحمت
صدر ٹرمپ کے خلاف یہ احتجاج امریکہ تک محدود نہ رہا، بلکہ یورپی شہروں جیسے لندن، پیرس اور روم میں بھی مظاہرے دیکھنے میں آئے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی پالیسیوں کے خلاف غصہ بین الاقوامی سطح پر بھی موجود ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اپنی قدامت پسند اقدار کو جارحانہ انداز میں عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس سے نہ صرف امریکی عوام، بلکہ یورپی اتحادی بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کے مشیر ایلون مسک اور دیگر ارب پتی شخصیات کو بھی اس ’اقتدار پر قبضے‘ کا حصہ قرار دیا گیا۔
سیاسی بے بسی اور عوامی غصہ
ڈیموکریٹک پارٹی کے بہت سے ارکان اس بات پر نالاں ہیں کہ وہ کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اقلیت میں ہونے کے سبب ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف مؤثر مزاحمت نہیں کر پا رہے۔ واشنگٹن میں ہونے والے احتجاج میں نمایاں ڈیموکریٹک رہنما جیمی راسکن نے خطاب کیا اور ٹرمپ کی پالیسیوں کو امریکی جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا۔
اسی دن واشنگٹن میں فلسطینی عوام کے حق میں ایک علیحدہ مارچ بھی منعقد کیا گیا، جس میں ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی گئی۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے خلاف اس سے قبل بھی 2016 میں ویمن مارچ کے دوران ایک بڑا احتجاج کیا گیا تھا، جس میں صرف واشنگٹن میں نصف ملین سے زائد افراد شریک ہوئے تھے۔
Comments are closed.