ٹرمپ کو نوبل انعام صرف غزہ جنگ بندی کی صورت میں مل سکتا ہے:فرانسیسی صدر میکروں

فرانس کے صدر ایمانویل میکروں نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل انعام صرف اس وقت مل سکتا ہے جب غزہ میں جاری جنگ بندی یقینی ہو۔ انہوں نے یہ بات منگل کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران سائیڈ لائنز پر دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی۔

ٹرمپ کی امن کوششیں اور نوبل انعام کی خواہش
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے 7 جنگیں رکوانے کی کوشش کی ہیں اور وہ امن کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ انہیں امن کا نوبل انعام دیا جائے۔ تاہم ان کی ہی ہدایت پر امریکا نے غزہ میں جنگ بندی سے متعلق قرارداد کو چھ بار ویٹو کیا ہے۔

میکروں کا موقف: ٹرمپ کے پاس موقع ہے
فرانسیسی صدر نے کہا کہ غزہ کی جنگ رکوانے کے لیے عملی کردار صرف صدر ٹرمپ ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا: “میں نے صدر ٹرمپ کو قریب سے دیکھا ہے، وہ جنگ بندی کے سلسلے میں متحرک ہیں اور اگر وہ امن کے نوبل انعام کے خواہش مند ہیں تو لازمی ہے کہ وہ غزہ کی جنگ کو ختم کرائیں۔”

اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت
میکروں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کو چاہیے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کی حکومت پر دباؤ ڈالیں تاکہ جنگ بند ہو اور حماس کی قید میں موجود قیدیوں کی رہائی ممکن بنائی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا واحد ملک ہے جو اسرائیل پر حقیقی دباؤ ڈال سکتا ہے کیونکہ اسرائیل کو غزہ میں جنگ لڑنے کے لیے امریکی اسلحہ مل رہا ہے۔

فلسطینی ریاست کے معاملے پر اختلافات
میکروں نے اعتراف کیا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی ریاست کا قیام اسی وقت ممکن ہوگا جب اسرائیل اس کی باقاعدہ منظوری دے گا۔

یروشلم میں فرانسیسی قونصل خانے کا خدشہ
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی ریاست کے اعتراف کے بعد یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ اسرائیل یروشلم میں قائم فرانسیسی قونصل خانہ بند کر سکتا ہے، جو فلسطینی شہریوں اور مغربی کنارے کے رہائشیوں کے لیے نہایت اہم ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ فرانس اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر آپشن پر غور کرنے کے لیے تیار ہے۔

Comments are closed.