واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات میں شامل ہونے کا خواہش مند ہے، تاہم انہیں اس حوالے سے کوئی جلدی نہیں۔ انہوں نے یہ بیان پٹسبرگ کے دورے سے واشنگٹن واپس آنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کے دوران دیا۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا:
“وہ (ایرانی) بات کرنا چاہتے ہیں، لیکن مجھے کوئی جلدی نہیں، کیونکہ ہم نے ان کی ایٹمی تنصیبات ختم کر دی ہیں۔”
ٹرمپ کے اس بیان سے امریکہ کی سخت گیر پالیسی کا عندیہ ملتا ہے، جبکہ دوسری جانب یورپی طاقتیں ایران کے ساتھ کسی ممکنہ معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے سرگرم ہو چکی ہیں۔
یورپی وزرائے خارجہ کا “ڈی فیکٹو ڈیڈلائن” کا تعین
ادھر فرانس، جرمنی، اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے پیر کے روز امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے فون پر بات چیت کی، جس میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ طے کرنے کے لیے اگست کے آخر کو “ڈی فیکٹو ڈیڈلائن” کے طور پر طے کیا گیا۔
یہ اطلاع ایگزیاس میڈیا نے تین معتبر ذرائع کے حوالے سے دی ہے، جو اس عمل میں براہ راست شامل ہیں۔ ایگزیاس کے مطابق اگر اس ڈیڈلائن تک کوئی معاہدہ طے نہ پایا، تو تینوں یورپی ممالک اقوام متحدہ کی “سنیپ بیک” میکانزم کو فعال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
“سنیپ بیک” میکانزم کا مفہوم
“سنیپ بیک” طریقہ کار کے تحت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی وہ تمام پابندیاں خود بخود دوبارہ نافذ ہو جائیں گی جو 2015 کے ایران نیوکلیئر ڈیل (JCPOA) کے تحت ہٹائی گئی تھیں۔
یاد رہے کہ امریکہ 2018 میں اس معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا، تاہم یورپی طاقتیں اس معاہدے کو برقرار رکھنے اور ایران کو پابند کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ تازہ پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو ایران پر بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ متوقع ہے۔
امریکی حکمتِ عملی اور ممکنہ راستے
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایران کے خلاف “زیادہ سے زیادہ دباؤ” کی پالیسی جاری ہے، جس میں سخت اقتصادی پابندیاں، سفارتی دباؤ اور عسکری تنبیہات شامل ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مذاکرات کی میز پر واپسی کا کوئی بھی راستہ ایران کو سیاسی و اقتصادی رعایتیں دیے بغیر مشکل دکھائی دیتا ہے۔
Comments are closed.