یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے ایک بار پھر روس اور چین کے ممکنہ فوجی تعاون پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ کییف میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے انکشاف کیا کہ روس میں ڈرون بنانے والی ایک فیکٹری میں چینی شہری کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ ماسکو نے یہ ڈرون ٹیکنالوجی چین سے “چوری” کی ہو۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حالیہ دنوں میں زیلنسکی چین پر روس کو فوجی امداد فراہم کرنے کا الزام عائد کر چکے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ یوکرینی حکومت نے بیجنگ پر براہِ راست فوجی معاونت کا دعویٰ کیا۔ تاہم، چین نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا ہے اور خود کو یوکرین جنگ میں “غیر جانب دار” قرار دیا ہے۔
یوکرینی وزارتِ خارجہ نے بھی چین کے سفیر ما شینگ کون کو طلب کر کے بیجنگ کے مبینہ کردار پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ زیلنسکی نے اپنی بات میں یہ بھی واضح کیا کہ ہو سکتا ہے روس کی جانب سے چینی ٹیکنالوجی کا حصول بیجنگ کی لاعلمی میں ہوا ہو، جس سے ان کے لہجے میں کچھ نرمی کا اشارہ ملتا ہے۔
اس ماہ کے آغاز میں بھی زیلنسکی نے دعویٰ کیا تھا کہ روس، سوشل میڈیا کے ذریعے چینی شہریوں کو اپنی فوج میں بھرتی کر رہا ہے، اور اس سلسلے میں چینی حکام کو بھی معلومات حاصل ہیں۔ یوکرینی حکومت یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ آیا ان چینی رضاکاروں کو بیجنگ کی طرف سے ہدایات دی جا رہی ہیں یا وہ ذاتی حیثیت میں شامل ہو رہے ہیں۔
یوکرین کی حکومت نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چین اور روس کے ممکنہ فوجی تعاون پر نظر رکھے اور اس معاملے کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔
Comments are closed.