امریکی معیشت میں سست روی، صدر ٹرمپ کو چین سے تجارتی معاہدے کی امید

واشنگٹن: 2025 کی پہلی سہ ماہی میں امریکی معیشت حیران کن طور پر سکڑ گئی ہے، جس کے بعد دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے مستقبل پر سوالیہ نشان اٹھنے لگے ہیں۔ امریکی محکمہ تجارت کے مطابق سال کی پہلی سہ ماہی میں GDP کی سالانہ شرح نمو منفی 0.3 فیصد رہی، جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں واضح کمی ہے۔

معاشی ماہرین اس گراوٹ کو بڑھتی ہوئی افراط زر، بلند شرح سود، عالمی تجارتی کشیدگی، اور اندرونی سیاسی غیر یقینی صورتحال سے جوڑ رہے ہیں۔ فیڈرل ریزرو کی جانب سے شرح سود میں اضافے کا مقصد افراط زر پر قابو پانا ہے، مگر اس کا اثر معاشی سرگرمیوں پر منفی پڑا ہے۔

ان حالات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اہم بیان میں کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ چین کے ساتھ ٹیرف اور تجارتی توازن کے حوالے سے ایک “مناسب اور متوازن” معاہدہ کرنے کی امید رکھتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکا صرف اشیاء کی برآمدات میں اضافہ نہیں چاہتا بلکہ املاکِ دانش کے تحفظ، اور منصفانہ تجارتی اصولوں پر بھی زور دے رہا ہے۔

ٹرمپ کا کہنا تھا:
“ہم چاہتے ہیں کہ چین ہمارے ساتھ منصفانہ سلوک کرے۔ ہم نے جو اقدامات کیے اور جو جلد کرنے جا رہے ہیں، ان کے نتیجے میں مثبت نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔”

چین اور امریکا کے درمیان تجارتی تعلقات گزشتہ ایک دہائی سے کشیدگی کا شکار رہے ہیں، بالخصوص ٹیکنالوجی، سیمی کنڈکٹرز، اور زرعی اجناس کے شعبوں میں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر امریکا چین سے کوئی مضبوط تجارتی معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ نہ صرف امریکی معیشت بلکہ عالمی مارکیٹس میں بھی استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔

ادھر امریکی اسٹاک مارکیٹس نے GDP کے اعداد و شمار پر مایوسی کا اظہار کیا ہے، جبکہ سرمایہ کار فیڈرل ریزرو کی آئندہ پالیسی اور چینی ردعمل کا انتظار کر رہے ہیں۔

معاشی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر تجارتی کشیدگی مزید بڑھی یا شرح سود میں اضافہ برقرار رہا تو امریکی معیشت باضابطہ طور پر کساد بازاری میں داخل ہو سکتی ہے۔

Comments are closed.