امریکی محکمہ خارجہ نے اسرائیل کو 7.4 ارب ڈالر مالیت کے جدید ہتھیار، میزائل اور گولہ بارود فروخت کرنے کے منصوبے کی باضابطہ منظوری دے دی ہے۔ اس پیش رفت سے متعلق کانگریس کو بھی مطلع کر دیا گیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق یہ اعلان جمعہ کے روز سامنے آیا، جو کہ وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات کے دو دن بعد کیا گیا۔
پینٹاگون کے مطابق اس دفاعی معاہدے میں جدید جنگی ساز و سامان، گائیڈنس کٹس، فیوز، گولہ بارود کی معاونت اور دیگر متعلقہ ساز و سامان شامل ہے۔ اس معاہدے کا ایک بڑا حصہ امریکی دفاعی کمپنی بوئنگ کے ذریعے مکمل کیا جائے گا۔
اسرائیل کو ملنے والے ہتھیار
اس معاہدے کے تحت اسرائیل کو ہزاروں بم اور جدید میزائل فراہم کیے جائیں گے، جن میں جی ڈی اے ایم (JDAM) کٹس، اسمارٹ بم، اور دیگر گائیڈڈ ہتھیار شامل ہیں۔ دفاعی ماہرین کے مطابق یہ جدید اسلحہ اسرائیل کی عسکری طاقت میں مزید اضافہ کرے گا اور خطے میں طاقت کا توازن متاثر کر سکتا ہے۔
عالمی ردعمل
اس مجوزہ معاہدے پر مختلف عالمی حلقوں میں ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسلحہ کی فروخت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ اسرائیل کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے اور خطے میں اس کے اتحادیوں کو مضبوط بنانے کے لیے اہم ہے۔
کانگریس کی منظوری باقی
یہ معاہدہ ابھی امریکی کانگریس کی منظوری کا منتظر ہے، جہاں اس پر بحث ہو سکتی ہے۔ کچھ امریکی قانون ساز اسلحہ کی فروخت پر سوالات اٹھا سکتے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ تاہم، تاریخی طور پر کانگریس اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت کی منظوری دیتی رہی ہے۔
Comments are closed.