امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ جنگ بندی منصوبے کے نکات سامنےآ گئے

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے تنازع کے فوری خاتمے کے لیے ایک مفصل 20/21 نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے جس میں فوری جنگ بندی، یرغمالیوں کی بازیابی، حماس کی عسکری ساخت کے خاتمے اور غزہ کی تعمیرِ نو کے بڑے اقدامات شامل ہیں۔ اس منصوبے کے مطابق فوراً جنگ بندی ہوگی اور موجودہ محاذوں پر لڑائی روک دی جائے گی، جبکہ 48 سے 72 گھنٹوں کے اندر زندہ اور مردہ یرغمالیوں کی بازیابی یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی۔

یرغمالیوں کی رہائی اور قیدیوں کا تبادلہ

منصوبے میں کہا گیا ہے کہ جلد از جلد تمام زندہ یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنانے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جائیں گے — مختلف رپورٹوں میں اس وقت 20 زندہ اور مجموعی طور پر 48 یرغمالیوں کا حوالہ دیا جا رہا ہے — اور مردہ یرغمالیوں کی باقیات کی واپسی کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ منصوبہ یہ بھی تجویز کرتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے قیدیوں کی رہائی اور تبادلے کے امکانات زیرِ غور آئیں گے۔ فریقین کی رضامندی اور عملدرآمد اس بات پر منحصر ہوگا کہ حماس اس پر اتفاق کرتی ہے یا نہیں۔

حماس کی عسکری صف بندی و معافی کے نکات

پلان کے مطابق حماس کے حملہ آور ہتھیار ڈال کر امن کے ساتھ رہنے والے جنگجوؤں کو عام معافی دی جا سکتی ہے اور جو ارکان غزہ چھوڑنا چاہیں انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔ ساتھ ہی غزہ میں مکمل طور پر حماس کے جارحانہ ہتھیار تباہ کرنے اور خطے کو غیر مسلح (demilitarised) بنانے کی شق رکھی گئی ہے۔ اس عمل کی نگرانی کے لیے بین الاقوامی مانیٹرز اور عبوری سکیورٹی فورس کا انتظام متوقع ہے۔

انسانی امداد، رہائش اور واپسی کے حقوق

منصوبے میں زور دیا گیا ہے کہ غزہ میں براہِ راست اور فوری انسانی امداد اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کے ذریعے پہنچائی جائے، امداد کی مساوی تقسیم کو یقینی بنایا جائے اور کسی کو زبردستی بے دخل نہ کیا جائے گا — جو لوگ واپس آنا چاہیں انہیں واپسی کا حق ہوگا۔ اس کے ساتھ غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے ایک وسیع اقتصادی پیکیج اور خصوصی اقتصادی زون بنانے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

عبوری انتظامیہ، بین الاقوامی بورڈ اور سکیورٹی انتظام

ٹرمپ کے منصوبے میں غزہ کے لیے ایک عارضی عبوری انتظام (technocratic/transitional body) قائم کرنے کی تجویز ہے جو ایک نئی بین الاقوامی تنظیم یا “بورڈ آف پیس” کے تحت کام کرے گا — رپورٹوں کے مطابق ٹرمپ خود بورڈ کی صدارت کر سکتے ہیں اور سابق عالمی رہنماؤں کو بھی شامل کرنے کی بات کی گئی ہے — جبکہ عبوری بین الاقوامی سکیورٹی فورس علاقائی سلامتی یقینی بنانے کی ذمہ داری سنبھالے گی۔

اسرائیلی انخلا، کنٹرول اور آئندہ سیاسی راستہ

منصوبے کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اسرائیلی فورسز مرحلہ وار غزہ سے پیچھے ہٹیں گی، اور غزہ کی دوبارہ الحاق یا مستقل قبضے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مستقبل میں غزہ کا انتظام فلسطینی اتھارٹی یا کسی متفقہ مجوزہ باڈی کے ذریعے سنبھالا جا سکے گا بشرطیکہ سیاسی اصلاحات اور بین الاقوامی نگرانی کے تقاضے پورے ہوں

بین الاقوامی اور سیاسی ردِ عمل — حقیقت پسندانہ خدشات

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل نے اس منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا ہے مگر حماس نے باضابطہ طور پر منظوری نہیں دی، لہٰذا منصوبے کے نفاذ کے راستے میں سیاسی اور عملی رکاوٹیں موجود ہیں۔ ناقدین اس بات پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ اتنی محدود مدت (48–72 گھنٹے) میں تمام زندہ اور مردہ یرغمالیوں کی بازیابی کس طرح ممکن بنائی جائے گی اور حماس کے تسلیم یا عدم تسلیم کی صورت میں کیا مانیٹرنگ/نفاذ میکانزم کام کرے گا۔ اسی لیے اتفاق رائے اور قابل عمل تکنیکی تفصیلات اہم کردار ادا کریں گی۔

تجزیاتی منظرنامہ — امکانات اور خطرات

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ منصوبہ امن کی امید جگاتا ہے مگر اس کے کامیاب نفاذ کے لیے حماس، قیدیوں کے مقامات، علاقائی پلٹس، امدادی چینلز اور بین الاقوامی قبولیت سمیت کئی پیچیدہ عوامل کو حل کرنا ہوگا۔ اضافی خطرہ یہ بھی ہے کہ اگر حماس منصوبے کو مسترد کردے تو فوجی کارروائی کے جواز کی آڑ میں مزید تشدد یا طویل قبضہ کے امکانات بڑھ سکتے ہیں — اسی لیے منصوبے کی کامیابی کا انحصار فریقین کے مضبوط بین الاقوامی دباؤ، معقول مراعات اور شفاف مانیٹرنگ میکانزم پر ہے۔

Comments are closed.