سیلاب پر سیاست کرنے کے بجائے عوام کی خدمت کریں عظمیٰ بخاری کا پیپلزپارٹی کو مشورہ

وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی مریم نواز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور پرفارمنس سے خوفزدہ ہو کر بے بنیاد بیانات دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر سیزفائر دوسری جانب سے ہوتا ہے تو مناسب ہے کیونکہ یہ معاملہ پنجاب حکومت نے شروع نہیں کیا۔

سیلاب اور کسانوں کے مسائل پر وضاحت

عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب پر سیلاب کی شکل میں بڑی آفت آئی لیکن پیپلزپارٹی نے حکومت کی مدد کرنے کے بجائے سیاست شروع کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ کسانوں کو امدادی قیمت نہ دینا آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے ہے، اور سندھ میں بھی کسانوں کو قیمت نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ بار بار یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پنجاب کا کسان مر گیا لیکن کوئی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ سندھ کا کسان کیوں نہیں مرا۔

وفاق اور صوبائی معاملات پر گفتگو

صوبائی وزیر نے کہا کہ سندھ میں سیلاب آیا تو پنجاب نے کبھی سیاسی بیان نہیں دیا بلکہ وزیراعظم شہباز شریف نے سندھ کی بھرپور مدد کی۔ ان کے مطابق سندھ میں کئی منصوبے وفاقی تعاون سے چل رہے ہیں جبکہ پنجاب میں وفاق کی مدد سے کوئی منصوبہ نہیں چل رہا۔

بیرونی امداد پر مؤقف

عظمیٰ بخاری نے واضح کیا کہ پنجاب حکومت بیرونی امداد نہیں لینا چاہتی اور نہ ہی اس پر کوئی زبردستی کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب نے سیلاب میں 25 لاکھ افراد اور 21 لاکھ مویشیوں کو ریسکیو کیا اور اپنی مدد آپ کے تحت متاثرین کی آبادکاری بھی کر رہا ہے۔ ان کے مطابق اس اقدام کو سراہا جانا چاہیے کہ پنجاب اپنے وسائل پر انحصار کر رہا ہے۔

بی آئی ایس پی پر بات

وزیر اطلاعات نے کہا کہ بی آئی ایس پی سے کسی کو مسئلہ نہیں ہے، نواز شریف کے دور میں اس پروگرام کو قانونی حیثیت دی گئی تھی۔ تاہم ہر سیلاب متاثرہ کسان کو بی آئی ایس پی کے ذریعے مدد نہیں مل سکتی کیونکہ کئی کاشتکار اس پروگرام میں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ ان کے مطابق بی آئی ایس پی کارڈ بیچنے کی ضرورت سیلاب کے وقت محسوس نہیں ہونی چاہیے۔

پیپلزپارٹی سے تعلقات اور کارکردگی کا مقابلہ

عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پیپلزپارٹی ہماری اتحادی جماعت ہے اور ملکی استحکام کے لیے یہ اتحاد ضروری ہے۔ لیکن ان کے بعض رہنما پنجاب میں رہتے ہیں اور سیاست کسی اور صوبے کے لیے کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں 17 سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، اگر وہاں ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبوں کی کارکردگی بہتر ہو تو ہمیں خوشی ہوگی۔ ان کے مطابق مقابلہ الزامات پر نہیں بلکہ کارکردگی پر ہونا چاہیے۔

Comments are closed.