دنیا بھر کی طرح یورپ میں بھی کورونا وائرس کے صورتحال میں بتدریج بہتری آ رہی ہے تاہم حالات معمول پر آنے کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں دوبارہ تشویشناک حد تک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
سپین میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لاک ڈاؤن کے اختتام کے بعد سے اب تک ہر تین روز کے دوران ایک خاتون کو قتل کیا گیا، بیلجیئم میں اپریل کے اختتام سے اب تک 13 خواتین ہلاک ہو چکی ہیں جب کہ سال 2020 کے دوران مجموعی طور پر24 خواتین کوقتل کیا گیا تھا، اسی طرح فرانس میں رواں برس اب تک 56 خواتین کو قتل کیا گیا، جب کہ گزشتہ برس کے پہلے چھ ماہ میں تشدد کے واقعات میں 46 فرانسیسی خواتین ہلاک ہوئیں۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یورپی میں ممالک میں خواتین پر تشدد اور قتل کے واقعات بڑھ گئے ہیں، حال ہی میں فرانسیسی خاتون چیہن کو اس کے شوہر نے زندہ جلا دیا، میڈیا رپورٹس کے مطابق موسم بہارکے تین ہفتوں کے دوران سویڈن میں پانچ خواتین کو قتل کیا گیا۔
سپین میں صفنی تشدد پر قابو پانے کیلئے قائم ٹاسک فورس کی سربراہ وکٹوریہ روسل کا کہنا ہے کہ ’’مرد حضرات جب دیکھتے ہیں کہ خواتین آزادی حاصل کر رہی ہیں اور ان پر کنٹرول کم ہو رہا ہے تو انتہائی درجے کے تشدد پر اتر آتے ہیں۔ وبائی صورتحال کے باعث پابندیوں میں نرمی کے بعددیکھا گیا ہے کہ یورپ ایک وباء شکار ہو رہی ہے جو کہ مردوں کا خواتین پر تشدد ہے، صورت حال یہ ہے کہ خواتین اپنی مدد کے لئے فون کال تک نہیں کر سکتیں‘‘۔
واضح رہے کہ سپین یورپ میں پہلا ملک ہے جس نے گھریلو تشدد کے خاتمے کے لئے 2004 میں قانون کی منظوری دی، خواتین کے خلاف جرائم اور تشدد کے واقعات میں حالیہ اضافے کے بعد وزیراعظم پیدرو سانچز نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ان کی حکومت اس لعنت کے خاتمے کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا چاہتی ہے۔
یورپ میں لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد خواتین کو زبردستی گھروں میں رہنے پر مجبور کرنے کے واقعات بڑھ گئے ہیں، اگر صرف سپین کی بات کی جائے تو کورونا وباء کے آغاز پر پہلے تین ماہ کے دوران گھریلو تشدد کا شکار خواتین کی جانب سے مدد کی درخواستوں میں 58 فیصد جب کہ آن لائن (چوری چھپے کی جانے والی) شکایات اور درخواستوں میں 458 فیصد اضافہ ہوا۔
Comments are closed.