لاس اینجلس میں غیر قانونی تارکین وطن سے متعلق پالیسیوں کے خلاف شدید مظاہرے، پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں

لاس اینجلس: امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں بدھ کے روز صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر قانونی تارکین وطن سے متعلق پالیسیوں کے خلاف شدید مظاہرے پھوٹ پڑے، جو جلد ہی پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں بدل گئے۔

عینی شاہدین اور میڈیا رپورٹس کے مطابق مظاہرین جب غیر قانونی تارکین وطن کے حراستی مرکز کے قریب پہنچے تو پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔

میڈیا نمائندوں کو بھی نشانہ بنایا گیا، اور بعض صحافیوں کو سوالات کے بعد جیل بھیجنے کی دھمکیاں دی گئیں، جس سے آزادی صحافت پر خدشات نے جنم لیا۔

مظاہرین میں سے بعض نے الٹا امریکی پرچم لہرا کر ریاستی نظام کے خاتمے کا پیغام دیا۔ احتجاج کے دوران پرتشدد مظاہرین نے شہر کی کئی گلیوں میں توڑ پھوڑ، لوٹ مار اور کاروباری املاک کو نقصان پہنچایا، جبکہ پرامن مظاہرین نے ان اقدامات سے باز رکھنے کی کوشش کی۔

ایپل اسٹور سمیت متعدد دکانوں کو لوٹنے کے بعد بند کر دیا گیا، جبکہ کئی کاروباروں نے لکڑی کے تختے لگا کر اپنے دفاتر اور دکانوں کو محفوظ بنانے کی کوشش کی۔ بعض دکانوں کو مکمل طور پر خالی کر دیا گیا۔ العربیہ کی نمائندہ نے ان مناظر کو “جنگی منظرنامہ” قرار دیا۔

میرین فورس کی تعیناتی پر تنقید کے جواب میں حکام نے وضاحت کی ہے کہ میرین اہلکار صرف وفاقی املاک، سرکاری عمارتوں اور حراستی مراکز کی حفاظت تک محدود ہیں، اور ان کی سڑکوں پر تعیناتی کا اختیار صرف ریاستی پولیس کے پاس ہے۔

پولیس اب بھی فسادات پر قابو پانے کی ذمہ دار ہے، جبکہ میرین فورس صرف اس صورت میں ردعمل دیتی ہے جب ان پر براہِ راست حملہ ہو۔

یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب کیلیفورنیا کی حکومت نے عدالت سے فوج کی سڑکوں پر تعیناتی کو روکنے کا حکم جاری کرنے کی اپیل کی ہے۔ گورنر گیون نیوسم نے فوجی تعیناتی کو “جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے لیے خطرہ” قرار دیا ہے۔

Comments are closed.