اسلام آباد (کورٹ رپورٹر) – سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کی، جس میں وکیل خواجہ حارث نے دلائل مکمل کر لیے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 28 اپریل تک ملتوی کر دی۔
دوران سماعت بینچ کے ججز نے متعدد اہم سوالات اٹھائے، جن میں آئین کی روشنی میں ملٹری کورٹ کے دائرہ اختیار، سویلینز کے حقوق اور قانون کی تشریح پر توجہ مرکوز رہی۔
پک اینڈ چوز؟ عدالتی سوالات اور خواجہ حارث کا مؤقف
جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا، “پک اینڈ چوز کس طرح کیا جاتا ہے؟”
خواجہ حارث نے وضاحت دیتے ہوئے کہا، “ایسا کچھ نہیں، ہر کیس کی نوعیت کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے کہ کس عدالت میں بھیجا جائے۔”
آئینی دائرہ کار اور مارشل لا ادوار کا حوالہ
جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ملٹری ایکٹ کا اطلاق صرف فورسز کے اہلکاروں پر ہوتا ہے۔ جسٹس افغان نے کہا، “مارشل لا دور میں آئین میں شامل کی گئی کئی شقوں کو واپس اصل شکل دی گئی، مگر آرمی ایکٹ کو ویسا ہی چھوڑ دیا گیا۔”
دلچسپ جملے بھی گونجے
جسٹس جمال مندوخیل نے خواجہ حارث کے دلائل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، “ایسا نہ ہو نمازیں بخشوانے آئیں اور روزے گلے پڑ جائیں۔”
9 مئی واقعات پر عدالت کا سوال
جسٹس حسن رضوی نے پوچھا کہ 9 مئی کے حملوں کے بعد کیا کسی ملٹری افسر کا احتساب کیا گیا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس سوال کا جواب اٹارنی جنرل خود دیں گے۔
فیصلہ آئندہ سماعت پر
عدالت نے خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے پر شکریہ ادا کیا اور سماعت کو 28 اپریل تک ملتوی کر دیا۔
Comments are closed.