دہشتگردی سے 90 ہزار شہادتیں ہوئیں، 90 لوگوں کو سزا نہیں ہوئی ،وزیر اعظم

اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیوں سے متعلق کیس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے اور عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ عدالت میں موجود ہیں۔

منصور عثمان اعوان نے مؤقف اختیار کیا کہ لاپتہ بلوچ طلبہ کی بازیابی کے لیے کوششیں کی گئیں، 11 مزید لاپتہ بلوچ طلبہ کو بازیاب کرالیا گیا ہے، 9 افراد سی ٹی ڈی کی تحویل میں ہیں، 4 تاحال ٹریس نہیں ہو سکے۔اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے بتایا کہ دو افراد افغانستان میں ہیں، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا جو قانونی عمل میں آگئے وہ اس کورٹ کے مینڈیٹ سے نکل گئے، ان کےخلاف کیس ہیں تو وہ متعلقہ عدالتیں دیکھیں گی۔

جسٹس محسن کیانی نے کہا ہم نے 2 سال میں کئی سماعتیں کیں، بلوچ طلبہ اٹھائے گئے، کچھ لوگ دہشتگرد ہیں، کچھ نے ٹی ٹی پی کو جوائن کیا، کچھ لوگ گھروں کو پہنچ گئے ہیں، ریاستی اداروں کو کام بھی کرنا ہے اور انہیں جوابدہ بھی ہونا ہے۔عدالت نے کہا کہ یہ کیس چلا ہے تو اداروں کی کوششوں سے ہی لوگ گھروں کوپہنچے ہیں، ادارے قانون سے بالاتر یا مستثنیٰ نہیں، اگر کسی کو گرفتار کریں تو اس سے متعلق پتہ ہونا چاہیے، لوگ لاپتہ ہوں تو پاکستان کی ریاست پر الزامات لگتے ہیں، ہم نے انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان پر مشتمل کمیٹی اسی لیے بنائی تھی۔

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کون احمق اور بے وقوف ہوگا جو جبری گمشدگیوں کی ایڈووکیسی کرے گا، ہم سب آئین اور قانون کے تحت کام کر رہے ہیں، میں عدالت کے بلانے پر حاضر ہوا ہوں، میرا تعلق بلوچستان سے ہے، ہم مسلح جدوجہد کا سامنا کر رہے ہیں، وہ نئی ریاست تشکیل دینے کیلئے مسلح جدوجہد کر رہے ہیں، ریاست اخلاقی طور پر خود کوبالادست سمجھتی ہے تو ان کی جوابدہی زیادہ ہوتی ہے۔

انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا ایسا نہیں ہے کہ خودکش حملہ آور نیک نامی کا باعث بنتے ہیں، لاپتہ افراد سے متعلق پیراملٹری فورسز، کاؤنٹر ٹیرارزم کے اداروں پر الزامات لگائے جاتے ہیں، یہ لاپتہ افراد کا پوچھیں تو 5 ہزار نام دے دیتے ہیں، یہ خود بھی اس مسئلے کو حل نہیں کرنا چاہتے، ان کی وجہ سے پوری ریاست کو مجرم تصور کرنا درست نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کوسٹل ہائی وے پر بس میں افراد کو زندہ جلا دیا گیا، کسی کو اس وقت انسانی حقوق کی خلاف ورزی یاد نہیں آئی، یہ بسوں سے اتار کر نام پوچھتے ہیں اور چودھری یا گجرکو قتل کر دیتے ہیں، یہ کہتے ہیں طلبہ کی لسانی بنیادوں پر پروفائلنگ نہ کریں، سسٹم میں کمی اور خامیاں ہیں، ثبوت نہیں آتا تو کس کو کیسے سزا دیں۔

نگران وزیراعظم کا کہنا تھا دہشتگردی سے 90 ہزار شہادتیں ہوئیں لیکن 90 لوگوں کو سزا نہیں ہوئی، مجھ سے صحافی نے پوچھا آپ بلوچستان واپس کیسے جائیں گے؟انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا نان سٹیک ایکٹرز کی خلاف ورزیاں بھی ریکارڈ ہوتی ہیں، بلوچستان کے ایک سابق چیف جسٹس کو مغرب کی نماز کے وقت مسلح جتھوں نے شہید کیا تھا، ان چیف جسٹس صاحب نے ایک انکوائری کی سربراہی کی تھی، آئین ریاست سے غیرمشروط وفاداری کا تقاضہ کرتا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے نگران وزیراعظم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ نے بہت اچھی باتیں کیں لیکن بلوچستان جانے کی ضرورت نہیں، اسلام آباد میں ہم بہت کچھ دیکھ رہے ہیں، یہ مطیع اللہ جان کھڑے ہیں، انہیں دن دیہاڑے اٹھایا گیا تھا، جس پر انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا ایسا اقدام جس کسی نے اٹھایا ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔

مزید خبروں کیلئے وزٹ کریں

Comments are closed.