لوگ اکثر حیرت سے پوچھتے ہیں کہ بھٹو اب تک زندہ کیسے ہے تو یہ داستان ہمیں بتاتی ہے کہ بھٹو کیوں زندہ ہے۔
کچھ دوست گلگت بلتستان میں بلاول بھٹو زرداری کے معرکۃ الآرا جلسوں سے متاثر ہوکر سوال پوچھتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کسی بھی دیگر جماعت کا جلسہ اس قدر بڑا اور شاندار نہیں ہوا ۔ آخر شمالی علاقہ جات کے عوام بھٹو یا پاکستان پیپلز پارٹی سے اس قدر محبت کیوں کرتے ہیں۔ 2008 سے 2013 کے دوران صدر آصف علی زرداری نے گلگت بلتستان کی پہلی صوبائی اسمبلی قائم کی اور گلگت بلتستان کی گورنر ایک خاتون ڈاکٹر شمع خالد کو لگایا۔
میرے دل و دماغ میں کچھ سوال آئے اور میں نے پوچھ تاچھ شروع کی کہ یہ خاتون ڈاکٹر شمع خالد کون ہیں۔ایک حیرت انگیز کہانی سننے کو ملی۔1967 میں وزارت سے استعفیٰ دینے کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی بنائی اور راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک بڑا جلسہ عام منعقد کیا۔ راولپنڈی کے جلسہ عام پر پولیس نے وحشیانہ تشدد کیا،عوام منتشر ہوگئی ، اور ایک وقت ایسا آیا کہ لیاقت باغ میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ صرف ایک دوسرا شخص پولیس کی لاٹھیاں کھا رہا تھا ۔
بھٹو صاحب اس دن پی سی ہوٹل راولپنڈی میں ٹھہرے ہوئے تھے دونوں پیدل پیدل ہوٹل کی جانب چل پڑے۔ اس شخص نے بھٹو صاحب کو پیشکش کی کہ وہ سرکاری ملازم ہے اور ملازمت چھوڑ کر ان کی پارٹی میں بطور کارکن کام کرنے کا خواہش مند ہے۔ بھٹو صاحب نے پوچھا کہ وہ کیا کام کرتا ہے تو پتہ چلا کہ وہ شخص جس کا نام ڈاکٹر خالد بلتی تھا وہ گورڈن کالج راولپنڈی کا پرنسپل تھا۔بھٹو صاحب نے اسے نوکری چھوڑنے سے سختی سے منع کیا اور یہ جاننے پر کہ اس کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے ۔ بھٹو صاحب نے اسے کہا کہ پہلے ہی وہاں کے عوام تو بہت بہت محروم ہیں اور تعلیم نہیں ہے تو آپ ابھی اپنے شعبہ سے نوکری نہ چھوڑو ۔
وقت بدل گیا وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے حلف اٹھایا کیا تو انہوں نے دو پروجیکٹ بنائے جن کے لیے لامحدود فنڈز فراہم کیے گئے۔ پہلا پروجیکٹ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے تھا اور دوسرا منصوبہ گلگت بلتستان میں تعلیم عام کرنے کا پروگرام تھا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر خالد بلتی پرنسپل گورڈن کالج کو وزیراعظم ہاؤس میں مدعو کیا اور گلگت بلتستان میں نئے تعلیمی ادارے قائم کرنے کے پروجیکٹ کا ہیڈ بنا کر انہیں گلگت بلتستان واپس جانے کو کہا۔ ڈاکٹر خالد بلتی نے گلگت بلتستان میں 28 ہائی سکول اور کم از کم چار ڈگری کالج قائم کیے۔ڈاکٹر خالد بلتی کی جدوجہد سے جلد ہی گلگت بلتستان میں تعلیم ہر شخص کو دستیاب ہوئی۔
جب آصف علی زرداری کو گلگت بلتستان کا گورنر لگایا لگانے کے لئے مناسب اور موزوں فرد کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے ڈاکٹر خالد بلتی کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ پتہ چلا کہ ان کی ایک ہی بیٹی ہیں جو گلگت میں پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دیتی ہیں ۔ ڈاکٹر شمع خالد کا بطور گورنر نام فائنل کیا گیا۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو کے زمانہ میں گلگت بلتستان کا پاکستان کے ساتھ کوئی لنک موجود نہیں تھا ۔ کوئی سڑک یا ذرائع آمدورفت موجود نہیں تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت اور سکردو میں ایئرپورٹ بناکر بس کے کرایہ کے برابر نرخ میں فضائی سفر کی سہولت دی۔گلگت بلتستان کے عوام کو سستے داموں پاکستان آنے جانے کے لیے ناٹکو بس سروس بنائی گئی جس کا کرایا پورے پاکستان میں سب سے کم تھا ۔ گلگت بلتستان کے عوام کو کو گندم اور دیگر اجناس پاکستان کی نسبت 50 فیصد سبسڈی پر مہیا کرنے کا انتظام کیا گیا ۔ شاہراہ قراقرم پر تیزرفتاری سے کام کیا گیا اور اسے مکمل کروا کر گلگت بلتستان کی عوام کو پاکستان کی عوام سے منسلک کیا گیا۔ پی پی پی نے اپنے ہر دور میں گلگت بلتستان کے عوام کو خصوصی اہمیت دی ۔ اس لیے گلگت بلتستان کے عوام پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں ترقیاتی کام ، انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے ایف ڈبلیو او اور این ایل سی کے ادارے قائم کئے گئے تھے ۔ کیونکہ اس وقت نجی شعبہ کے پاس ان دشوار گذار پہاڑی علاقوں میں ترقیاتی کام کرنے کی صلاحیت موجود نہیں تھی ۔جب کبھی بھی آزاد اور منصفانہ انتخابات ہوں گے گلگت بلتستان کے عوام بھاری اکثریت سے پاکستان پیپلز پارٹی کو منتخب کروائیں گے۔
Comments are closed.