عدالتی فیصلوں کے باوجود کرپشن ختم نہیں ہوسکی، چیف جسٹس
نیب ترمیم اس اسمبلی نے کیں جو مکمل ہی نہیں،سسٹم میں موجود خامیوں کو بھی دور کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی:چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے عمران خان کی نیب ترامیم کےخلاف درخواست کی سماعت میں ریمارکس،نیب ترامیم سے فائدہ صرف ترمیم کرنے والوں کو ہی ہوا۔ترامیم کی نیت ہی ٹھیک نہ ہو تو آگے جانے کی ضرورت ہی نہیں، جسٹس اعجازالاحسن
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ نیب ترمیم اس اسمبلی نے کیں جو مکمل ہی نہیں۔عدالتی فیصلوں کے باوجود کرپشن ختم نہیں ہوسکی۔سسٹم میں موجود خامیوں کو بھی دور کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نیب ترامیم سے فائدہ صرف ترمیم کرنے والوں کو ہی ہوا۔ترامیم کی نیت ہی ٹھیک نہ ہو تو آگے جانے کی ضرورت ہی نہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایگزیکٹو اپنا کام نہ کرے تو لوگ عدالتوں کے پاس ہی آتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اس نقطے پر قانون نہیں ملا کہ نامکمل اسمبلی قانون سازی کر سکتی ہے یا نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چند افراد کی دی گئی لائن پر پوری سیاسی پارٹی چل رہی ہوتی ہے۔نیب ترمیم کی ہدایت کرنے والوں کو اصل میں فائدہ پہنچا۔کیا ایسی صورتحال میں عدلیہ ہاتھ باندھ کر تماشا دیکھے؟ترامیم کی نیت ہی ٹھیک نہ ہو تو آگے جانے کی ضرورت ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فیصلوں کے باوجود کرپشن ختم نہیں ہوسکتی۔حکومت سسٹم کی کمزوری کے باعث منصوبوں میں کرپشن پکڑ نہیں سکی۔پارلیمان کا کام ہے سسٹم میں بہتری کیلئے قانون بنائے اور عمل بھی کرائے۔جسٹس منصوری علی شاہ نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کرپشن کا سدباب کس نے اور کیسے کرنا ہے۔جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کرپش ختم کرنا ایگزیکٹو کا کام ہے۔اگر ایگزیکٹو اپنا کام نہیں کر سکی تو عدالت مداخلت کرتی ہے۔
جسٹس اعجا الاحسن نے کہا کہ جب سسٹم تباہ ہو رہا ہو تو عدلیہ مداخلت کرتی ہے۔۔عدالت کس اختیار کے تحت کہ نیب ترامیم کو مفادات کے ٹکراو پر کالعدم قرار دے سکتی ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ نیب قانون کا اطلاق افواج اور عدلیہ پر نہیں ہوتا۔عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔۔خواجہ حارث عدالتی سوالات کے جواب دینگے۔
Comments are closed.