چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے معاملے پر از خود نوٹس کیس کی پہلی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس نعیم افغان اور جسٹس عرفان سعادت خان شامل ہیں۔
عدالت نے کارروائی کے حکم نامے میں کہا کہ فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال اپنے بیانات کی وضاحت کریں۔ بادی النظر میں توہینِ عدالت ہوئی ہے۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے بدھ کو پریس کانفرنس کے دوران سپریم کورٹ کے جج اطہر من اللہ سمیت عدلیہ پر تنقید کی تھی جب کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال نے بھی جمعرات کو پریس کانفرنس کر کے اسی قسم کی تنقید کو دہرایا۔
سپریم کورٹ نے پیمرا کو ہدایت کی ہے کہ وہ دونوں رہنماؤں کی گفتگو کی ویڈیو ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ جمع کرائے جب کہ عدالت نے معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس کر دیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ مارشل لا کی توثیق کرنے والوں کا کبھی دفاع نہیں کریں گے۔ جس کے پاس دلائل ہوں گے وہ ہم ججز کو بھی چپ کرا دے گا۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی عامر رحمان سے استفسار کیا کہ “آپ نے تقریر سنی اس پر توہینِ عدالت کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یوٹیوب پر میوٹیڈ کاپی موجود ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تعمیری تنقید ضرور کریں لیکن چیخ و پکار اور ڈرامے کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ فیصل واوڈا اور مصطفی کمال پارلیمنٹ کے ارکان ہیں۔ اگر انہیں کوئی اعتراض تھا تو ایوان میں بولتے۔ ایسی گفتگو کرنے کے لیے پریس کلب ہی کا انتخاب کیوں کیا؟ اگر انہیں کسی جج پر اعتراض تھا یا کوئی گلہ تو اس کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ اس کے خلاف پٹیشن فائل کردیتے لیکن اس طرح پریس کانفرنس کرنا کسی طور پر درست نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر میں نے کچھ غلط کیا تو مجھے کہیں، عدالت کو نہیں۔ وکلا، ججز اور صحافیوں سب میں اچھے بُرے لوگ ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے میں نے بھی اس ادارے میں 500 نقائص دیکھے ہوں۔ لیکن باپ کے گناہ کی ذمے داری بیٹے کو نہیں دی جاسکتی۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اب وزن آپ کے کندھوں پر ہے۔ کیا شوز کاز نوٹس ہونا چاہیے یا صرف نوٹس ہونا چاہیے۔
عدالت نے پیمرا سے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنسز کی ویڈیو ریکارڈنگ اور متن بھی طلب کرلیا اور اس سلسلے میں اٹارنی جنرل کو بھی معاونت کے لیے نوٹس جاری کر دیا ہے۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے بدھ کو اسلام آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران جسٹس اطہر من اللہ پر تنقید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ گمان ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ رات کے اندھیرے میں کسی سے نہیں ملتے، ان کا کسی پرانے خاص سے کوئی تعلق نہیں اور وہ کسی سیاسی جماعت کے میسنجر سے نہیں ملتے۔
اسی طرح مصطفیٰ کمال نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ملک میں جعلی ڈگریوں، دوہری شہریت پر ایم این ایز، سینیٹرز کو گھر جاتے دیکھا لیکن عدلیہ جیسے ادارے میں قول و فعل میں تضاد آ رہا ہے۔ انہوں نے سوال کیا تھا کہ دوہری شہریت والے کسی شخص کو جج ہونا چاہیے؟
جمعے کو از خود نوٹس کی سماعت کے دوران جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ بندوق اٹھانے والا سب سے کمزور ہوتا ہے کیوں کہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا۔ دوسرے درجے کا کمزور گالی دینے والا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں پتا ہے ہماری عدلیہ عالمی درجہ بندی میں کس نمبر پر ہے لیکن گالیاں دینا مناسب نہیں۔ ادارے عوام کے ہوتے ہیں اور اداروں کو بدنام کرنا ملک کی خدمت نہیں۔ یہ لوگوں کا ادارہ ہے آپ اس کا وقار کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
Comments are closed.