اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ارشد شریف ازخود نوٹس کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کر دی۔ دوران سماعت جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ کینیا نے شواہد تک رسائی نہیں دی،کوئی ٹھوس مواد نہیں ملا،عدالت نے جے آئی ٹی سربراہ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کہانیاں نہ سنائیں، ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پبلک کرنے کے پیچھے کون ملوث تھا؟،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ارشد شریف کے قتل کا الزام قبل ازقت کسی پر عائد نہیں کر سکتے ، پاکستان سے تحقیقات میں غلطیاں ہوئی ہیں، عدالت نے تحقیقات کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے ارشد شریف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ جے آئی ٹی نے قتل کی تحقیقات پر رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی۔عدالت کے استفسار پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فارن آفس اور جے آئی ٹی کی رپورٹس جمع کروا دی ہیں۔ دفتر خارجہ کی رپورٹ میں ان کی معاونت کے حوالے سے تفصیلات بیان کی گئی ہیں، جے آئی ٹی نے اپنی تحقیقات کے حوالے سے عبوری رائے دی ہے،جے آئی ٹی کی تفتیش ابھی جاری ہے،کینیا میں سی آئی ڈی افسران سے ہمارے افسران نے ملاقات کی،جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے جے آئی ٹی سربراہ سے استفسار کیا کہ شواہد آپ کو ملے پیں؟ آپ ہاں یا نہ میں بتائی کہ کیا آپ کو شواہد ملے ؟ جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ ہمیں کینیا سے شواہد نہیں ملے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ کینیا کے ڈاکٹرز نے اپنی رپورٹ دی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کینیا نے پہلے تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی، بعد میں ایسا کیا ہوا کہ کہنا نے تعاون نہ کیا،دفتر خارجہ کھوج لگائے اور ریاست کو آگاہ کرے،اس کیس میں دو اہم پہلو ہیں ایک ڈومیسٹک اور ایک فارن،ارشد شریف کیس کی فحکٹ فائنڈنگ رپورٹ کیس لیک ہوئی،ہمیں تمام ممالک کی خودمختاری کا احترام کرنا چاہیے، فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جس نے بھی لیک کی ہمیں پتہ کر کے بتائیں،جے آئی سربراہ نے کہا کہ ہمیں کرائم سین تک رسائی۔ ہیں دی گئی،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کون سی ایسی ایجنسیاں ہیں جو ہماری مدد کر سکیں؟جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ ارشد شریف کا آئی فون اور آئی پیڈ ہمارے حوالے نہیں کیا گیا،کوئی ایسا مواد نہیں ملا جس سے کسی نتیجے پر پہنچیں ،کینیا نے ہمارے ساتھ زیادہ تعاون نہیں کیا،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کینیا نے ارشد شریف پر فائرنگ کرنے والے دو پولیس اہلکاروں کے خلاف تحقیقات مکمل کر لیں، کینین پولیس نے ذمہ پولیس اہلکاروں کے خلاف رپورٹ پبلک پراسیکیوٹر کو ارسال کر دی،جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ جے آئی ٹی کے تمام ارکان کہاں پر ہیں، جے آئی ٹی کے تمام ارکان کو یہاں ہونا چاہیے تھا،جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ جے آئی ٹی کے تین ارکان موجود ہیں باقیوں کو بلا لیتے ہیں،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الزام تراشی کی ضرورت نہیں ہے ہمیں دیکھنا ہے کہہ اس ٹیم کی مدد کیلئے مزید کیا اقدامات کریں، ہم کسی پر نہ تو الزام تراشی کر رہے ہیں اور نہ ہم کسی ملک کو یا کسی اور کو ناراض کر سکتے ہیں، جو رپورٹ جاری ہوئی وہ درست تھی یا نہیں اب تک طے نہیں ہوسکا،کس نے یہ جے آئ ٹی کی ریپورٹ پبلک کی یہ معلوم کرنا ہے،انکواری کے نکات ملک کے اندر کیا تھے اور دوسرے ملک میں تحقیقات کا کیا طریقہ اپنایا گیا،دونوں ممالک کے درمیان تحقیقات شروع ہونے سے پہلے کچھ ایسا ہوا کہہ دونوں ٹیمیں سست ہوگئیں،کینیا حکومت کو ہیڈ آف جے آئ ٹی کی جانب سے لکھا گیا خط پڑھ کر سنایا گیا،ہم تحقیقات کو سپروائز نہیں کر رہے اس لئے اسکی تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے،یہاں فارن آفس کو کردار ادا کرنا چاہئے تھا۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آپ پہلے دن سے ہمیں ایک ہی کہانی سنا رہے ہیں کہہ تعاون نہیں ملا ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہہ قتل کے خوف سے ارشد شریف کو یہاں سے جانا پڑا، کیا آپ نے تحقیقات کیں کہ وہ خطرہ کس کی طرف سے تھا، کس نے متعدد ایف آئی آرز درج کروائیں، وہ کیا حالات تھے جس کی وجہ سے ارشد شریف باہر نکلنے پر مجبور ہوا۔آپکے پاس کوئی ایسا مواد ہے جو آپ اس قتل سے منسلک ہو سکے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں کسی فارنر کا کسی عدالت میں کیس پھنس جائے تو متعلقہ ایمبیسی ہمیں خط لکھ دیتی ہے ہم تعاون کرتے ہیں، ایسا کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔ یہ اہم معاملہ ہے بے نتیجہ نہیں چھوڑیں گے، ہم ایک ماہ کا وقت دیتے ہیں مدت کا تعین کرے، زیادہ طویل ہونے کی صورت میں معاملات خراب ہوسکتے، صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کی تعاون حاصل کرے۔ ارشد شریف کی اہلیہ نے عدالت سے استدعا کی کہ ارشد شریف کی جے آئی ٹی کی عبوری رپورٹ کی نقل فراہم کیجائے، عدالت نے عبوری رپورٹ کی نقل اہلیہ کو فراہم کرنے سے انکارکرتے ہوئے کہا کہ اس مرحلے میں رپورٹ کسی کو دینا یا پبلک کرنا کیس کی تفتیش کومتاثر کرے گا،بعد میں رپورٹ کی نقول فراہم کی جائے گی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پبلک کرنے کے پیچھے کون ملوث تھا؟، سپریم کورٹ کا تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed.