اسد عمر کا تحریک انصاف چھوڑنے سے انکار،عہدوں سے مستعفی

اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری اسد عمر نے عہدہ اور کورکمیٹی کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کردیا۔
نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا 10 مئی کو میری گرفتاری ہوئی تب سے قید تنہائی میں تھا ، 9 مئی کو جو واقعات ہوئے اس کی مذمت تمام لوگ کرچکے، میں تفصیل میں جانا چاہتا ہوں کیوں یہ واقعات ملک کیلئے خطرناک ہیں، ایسی تنصیبات جن کا فوج سے تعلق تھا ان پر حملے کیے گئے۔ عمران خان کہہ چکے ہیں پاکستان کیلئے فوج ضروری ہے، فوج کی طاقت صرف بندوقوں سے نہیں قوم پیچھے کھڑی ہوتی ہے، 9 مئی کو جو واقعات دیکھنے کو ملے وہ قابل مذمت ہیں، 9 مئی کے واقعات پر شفاف تحقیقات ہوں جس پر قوم کو اعتماد ہو، ذمہ داران کے خلاف بھرپور طریقے سے کارروائی ہونی چاہیے، بے گناہ افراد کو جلد سے جلد رہا کیا جائے، ملوث ہونے والوں کوسزا انتہائی ضروری ہے۔
اسد عمر کا کہنا تھاکہ فوج دو تین جرنیلوں کا نام نہیں ہوتا وہ لاکھوں لوگوں پر مشتمل ہے جو اپنی زندگی ہماری حفاظت کیلئے داؤ پر لگاتے ہیں، میرا تین نسلوں سے فوج سے تعلق ہے اور مجھے اس پر فخر ہے، جیل میں سوچنے کا بڑا وقت ہوتا ہے، اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم ہے اور پورا ملک دیکھ رہا ہے، عدلیہ فیصلے کرتی ہے اور اس پر عمل نہیں ہوتا۔

سابق وزیر خزانہ کا کہنا تھاکہ پی ڈی ایم ایک سیاسی حقیقت ہے، آج الیکشن کروا دیا جائے تو وفاق، پنجاب اور کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت بنے گی اور سندھ اور بلوچستان میں پی ڈی ایم کی بنے گی ، وفاق میں ان کی تگڑی اپوزیشن ہوگی۔آج ایک عام پاکستانی کی زندگی مشکل میں ہے، عوام تکلیف میں ہیں، اس وقت ملک میں تمام اسٹیک ہولڈرز کیلئے خرابی ہے، 1971کے بعد آج پاکستان کیلئے خطرناک صورتحال ہے، چیف جسٹس نے بار بار دہرایا کہ سیاسی مسائل کا حل مذاکرات سے نکالا جائے، پاکستان کے موجودہ حالات پر دوست ممالک کو بھی فکر ہے اور دوست ممالک بھی کہہ رہے ہیں کہ مذاکرات سے مسائل حل کریں، وقت ہے کہ سیاسی مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل نکالا جائے۔
اسد عمر کا کہنا تھاکہ 9 مئی کے بعد میرے لیے ممکن نہیں ہے کہ قیادت کی ذمہ داریاں نبھا سکوں، سیکرٹری جنرل اور کور کمیٹی کی رکنیت سے مستفی ہو رہا ہوں۔میں نے صرف پارٹی عہدے سے استعفیٰ دیا ہے، مجھ پر کوئی دباؤ نہیں، اپنی مرضی سے عہدہ چھوڑا۔ خیال رہے کہ اسد عمر کو آج ہی اڈیالہ جیل سے رہا کیا گیا ہے۔

Comments are closed.