سائفر پر ڈرامائی انداز میں بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی، ڈی جی آئی ایس پی آر
یہ بات بھی کی گئی کہ ارشد شریف کو مختلف میٹنگز کے منٹس اور سائفر بھی دکھایا گیا، سائفر اور ارشد شریف کی وفات سے جڑے حقائق تک پہنچنا ضروری ہے، اس سلسلے میں ابہام پیدا ہوا ہےجب کہ سائفر کے معاملے میں آرمی چیف نے 11 مارچ کو اس وقت کے وزیراعظم سے کامرہ میں تذکرہ کیا تھا، حکومت کےخلاف سائفر کے شواہد نہیں ملے، کمیٹی نے بریفنگ دی کہ سفیر کی ذاتی اسسمنٹ ہے، سفیر نے جو لائحہ عمل تجویز کیا تھا وہی کمیٹی نے فارن آفس کو کہا تھا، یہ سب ریکارڈ کا حصہ ہے، فوج کی لیڈر شپ کو نشانہ بنایا گیا، ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج آپریشن سے لنک کردیا گیا، یہی وہ وقت تھا جب ارشد شریف اور دیگر صحافیوں کو ایک مخصوص بیانیہ فیڈ کیا گیا جس کی حقیقت بہت حد تک واضح ہوچکی، لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار
راولپنڈی : ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ ارشد شریف کی وفات سے جڑے حقائق تک پہنچنا ضروری ہے کیونکہ اس حوالے سے اداروں، لیڈرشپ اور آرمی چیف پر بے بنیاد الزام تراشی کی گئی۔
ڈی جی آئی ایس آئی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ارشد شریف ایک نڈر صحافی تھے اور ایک شہید فوجی کے بھائی تھی، ارشد شریف کی موت انتہائی اندوہناک واقعہ ہے، دیکھنا ہو گا کہ مرحوم ارشد شریف کی موت کے حوالے سے اب تک کیا حقائق سامنے آئے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا دیکھنا ہو گا کہ ارشد شریف کو ملک سے باہر جانے پر کس نے مجبور کیا، ہماری اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی خاص ہدایت پر 5 اگست کو تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا، اس تھریٹ الرٹ سے سکیورٹی اداروں سےکوئی معلومات شیئر نہیں کی گئیں، اس سےظاہر ہوتا ہے کہ تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا، کے پی حکومت نے ارشد شریف کو باچا خان ایئرپورٹ تک مکمل پروٹوکول دیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا تھریٹ الرٹ سےلگتا ہے کہ اس کا مقصد ارشد شریف کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا، سلمان اقبال نے شہباز گل کی گرفتاری کے بعد عماد یوسف کو کہا ارشد شریف کو باہر بھیج دیا جائے، ارشد شریف کی موت کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہونی چاہیے، ان تمام حالات و واقعات میں اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو سلمان اقبال کا ذکر بار بار آتا ہے، انہیں واپس پاکستان لایا جائے اور شامل تفتیش کیا جائے، ہم سب کو انکوائری کمیشن کا انتظار کرنا چاہیے۔
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخارنے کہا کہ اپنے اداروں پر اعتماد رکھیں۔ماضی میں ہوئی غلطیوں کو پچھلے 20 سالوں سے اپنے خون سے دھو رہے ہیں، ہم کمزور ہو سکتے ہیں، ہم سے غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر ہم سازشی نہیں ہو سکتے کیونکہ ایک بہت مشہور اسکالر نے کہا تھا کہ اگر پاکستان کو توڑنا ہے تو اس کی فوج کو کمزور کرنا ہو گا۔ایک متحد قوم ہی چیلنجز کا مقابلہ کر سکتی ہے، ہم بطور ادارہ کبھی اپنی قوم کو مایوس نہیں کریں گے، یہ وقت اتحاد، تنظیم اور نظم و ضبط کا ہے۔
مبینہ امریکی سازش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا سابق وزیراعظم نے سائفر پر کہا تھا کہ کوئی بڑی بات نہیں لیکن پاکستانی سفیر کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، اسد مجید کے حوالے سے من گھڑت خبر بھی چلائی گئی۔آرمی چیف نے 11 مارچ کو کامرہ میں اس وقت کے وزیراعظم سے سائفر کا خود ذکر کیا اور پھر 27 مارچ کو ایک خط لہرا دیا گیا، ہم نے ہر ممکن کوشش کی سیاستدان خود مسئلہ حل کریں لیکن ایسانہ ہو سکا، سائفر کے معاملے پر کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سائفر سے متعلق من گھڑت کہانی سنائی گئی، آئی ایس آئی کو سائفر سے متعلق کسی سازش کے شواہد نہیں ملے، ہم حقائق قوم کے سامنے لانا چاہتے تھے لیکن اُس وقت کی حکومت پر چھوڑ دیا، سائفر سے متعلق رجیم چینج آپریشن کا کہا گیا، پاکستانی فوج کو نشانہ بنایاگیا۔ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج آپریشن سے جوڑ دیا گیا۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا مرحوم ارشد شریف، دیگر صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے بھی سائفر پر بات کی، اس سب کے باوجود ہمارے دل میں ارشد شریف سے متعلق کوئی نفرت نہیں ہے، ہم نے کہا بغیر ثبوت من گھڑت الزامات ادارے پر نہ لگائے جائیں، میڈیا ٹرائل میں اےآر وائی چینل نے جھوٹے، سازشی بیانیے کے فروغ میں کردار ادا کیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا ہےکہ سلمان اقبال نے شہبازگل کی گرفتاری کے بعد عماد یوسف کو کہا کہ ارشد شریف کو باہر بھیج دیا جائے، سلمان اقبال کو پاکستان واپس لاکر شامل تفتیش کرنا چاہیے۔لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ میڈیا ٹرائل میں اے آر وائی چینل نےجھوٹے اور سازشی بیانیےکے فروغ میں کردار ادا کیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 10 اگست کوپشاور ائیرپورٹ سے ارشد شریف دبئی کے لیے روانہ ہوئے، کے پی حکومت نے انہیں ائیرپورٹ تک مکمل پروٹوکول فراہم کیا، 5 اگست کو ارشد شریف سے متعلق کے پی حکومت کی طرف سے تھریٹ الرٹ جاری ہوا، اس تھریٹ الرٹ سے سکیورٹی اداروں سےکوئی معلومات شیئرنہیں کی گئیں، اس سےظاہر ہوتاہے تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا، تھریٹ الرٹ سے لگتا ہے ارشد شریف کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے مزید کہا کہ سلمان اقبال نے شہبازگل کی گرفتاری کے بعد عماد یوسف کو کہا کہ ارشد شریف کو باہر بھیج دیا جائے، سلمان اقبال کو پاکستان واپس لاکر شامل تفتیش کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کو انکوائری کمیشن کا انتظار کرنا چاہیے۔اپنے اداروں پر اعتماد رکھیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جیسے میں کہا کہ ڈی جی آئی نے بھی اس سے پہلے یہ بات کی کہ ہمارے پاس ایسی کو انفارمیشن نہیں تھیں کہ ارشد شریف کی جان کو پاکستان میں خطرہ تھا،میرے ساتھ انہوں نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی۔وہ مجھ سے رابطے میں تھے،میرے ساتھ نہ بھی ہو تو میرے ادارے میں موجود لوگوں کے ساتھ ان کا رابطہ رہتا تھا۔انہوں نے کبھی اس بارے میں ڈسکس نہیں کیا، کبھی انہوں نے یہ بات کی ہوتی تو ہم ضرور ان کے ساتھ کھڑے ہوتے،کیونکہ جیسے میں نے کہا کہ ادارے کے ساتھ ان کا خاص تعلق تھا اورجس نوعیت کے پروگرام انہوں نے پاکستان فوج کے بارے میں کیے ہمارے شہدا کے بارے میں کیے ان کا بہت بڑا قرض ہے ہم پر۔اس لئے میں یہ ذمے داری سے کہہ رہا ہوں کہ انہوں نے کبھی ایسی بات نہ مجھ سے کی اور نہ میرے ادارے میں کسی اور سے۔بعد میں جب یہ تھریٹ الرٹ جاری ہوا اس پر بھی بعد میں جب آئی ایس آئی نے اس کے اوپر کام کیا۔ہم بہت واضح ہیں کہ ایسی کوئی انفارمیشن نہیں تھی کہ ان کی جان کو پاکستان میں خطرہ تھا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے صحافی سلیم صافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ سلیم صافی صاحب آپ نے جو بات کی بالکل۔آپ نے جس طرح کہا کہ اگر کوئی صحافی اس کمیٹی کا حصہ حکومت بنا سکتی ہے تو ان کو بنانا چاہئے۔میں نے اسی لئے کہا کہ انٹرنیشنل ایکسپریٹ، انٹرنیشنل ادارے۔جو بھی ممکن ہو۔کیونکہ اسی وجہ سے جو آپ نے کہا کہ پہلے ایسی کئی تحقیقات ہوئیں اپنے منطقی انجام پر نہیں پہنچ سکیں۔پہنچنا چاہئے،تمام تحقیقات کو اپنے منطقی انجام تک پہنچا چاہئے ان کا نتیجہ نکلنا چاہئے،تبھی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں اور ہماری صحافی برادری اپنی آبجیکٹویٹی کے ساتھ اپنی رپورٹنگ بغیر کسی ڈر کے بغیر کسی خدشے کے کرسکتی ہے (سو اٹس مسٹ ہیپنڈ، اینڈ لیٹس سٹارٹ نائو لیٹس ٹیک اے سٹارٹ نائو) اور اس کے بعد جو بھی ہمارے پینڈنگ کیسز ہیں ان سب کو دیکھنا چاہئے(آئی ایم ایبسلوٹلی دس اٹ)
ڈی جی آئی ایس پی آر کا ارشد شریف کیس کی تحقیقاتی کمیٹی سے متعلق سوال پر کاکہنا تھا کہ ہم نے اپنے طورپر اس سے ودڈرا کیا ہے لیکن اگر کمیشن کو کسی بھی صورت میں ادارے کی ایکسپرٹیز کی ضرورت پڑی تو ہر ممکن تعاون کیا جائے گا ہر ممکن تعاون کیا جائے گا اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی،آپ نے جو پہلا سوال کا اس کے بارے میں میں پہلے ہی جواب دے چکا ہوں کہ انکوائری کمیشن نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کس کس نے اس بارے میں کیاکیا بات کی ہے۔اور اگر وہ ان کو شامل تفتیش کرنا چاہتے ہیں تو کریں۔میں نے سلمان اقبال صاحب کا ذکر خاص طورپراس لئے کیا ہے کہ جتنے سوالات ہم نے اٹھائے ہیں ان میں کہیں نہ کہیں پر ان کا کنکشن ضرور ہے تو یہ بہت ضروری ہے کہ انہیں ملک واپس لایا جائے اور تحقیقات کا حصہ بنایا جائے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یقیناً ہرعمل کا ردعمل ہوتا ہے، ہم سب یہ سمجھتے ہیں،اور ہم سب اس سے آگاہ ہیں۔جو آج ہم نے بات چیت کی میں نے جیسے کہا کہ ہم نے کسی پر کوئی الزام لگانے کی کوشش نہیں کی ہے ہم نے صرف حقائق سامنے رکھے ہیں اور یہ آپ کے سامنے رکھے ہیں اور یہ آپ پرہے کہ کنیکٹ دا ڈاٹ اور دیکھیں کہ میڈیا کارڈ کون کھیل رہا ہے اور کون اس پر مہم چلا رہا ہے،یہ وہ چیزیں ہیں جن کے اوپر میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں آپ کی سپورٹ چاہئے ہوگی۔اب آپ اس کو آگے لے کرچلیں گے۔ہمارے پاس جو ابھی تک تھا وہ ہم نے شیئر کیا ہے اور ہمارا مستقبل کا جو لائحہ عمل ہے وہ بھی ہم نے آپ کو بتا دیا ہے کہ ہم صرف تحقیقاتی کمیشن کا انتظار کررہے ہیں۔اور ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ اسے بہترین ممکن وسائل دیئے جائیں۔بہتر ممکن ماحول دیا جائے تاکہ وہ اس کیس کو پوری طریقے سے تحقیقات کرکے حل کرسکیں۔
Comments are closed.