اسلام آباد : سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات میں تاخیر پر حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کردیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ آئین کے مطابق الیکشن اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں کیے جانے ہیں، سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا وقت مزید بڑھ سکتا ہے۔
سپریم کورٹ میں انتخابات پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 20 فروری کو صدر کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورتحال بدل گئی، کچھ سوال دونوں اسمبلی کے اسپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کیے ہیں، سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عمل درآمد کرانا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کیس کیلئے وقت دینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، ہم ارادہ رکھتے ہیں آپ سب کو سنیں، ہم نے آئندہ ہفتے کا شیڈول منسوخ کیا ہے تاکہ یہ کیس چلا سکیں۔آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہوں گے، وقت جلدی سے گزر رہا ہے، ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوالات اٹھائے کہ اسمبلی توڑنے اختیار کے استعمال کا جائزہ بھی لینا چاہیے کہ کیا وزیر اعلی سیاسی رہنما کی ہدایت پر اسمبلی توڑ سکتے ہیں؟ عوام نے نمائندوں کو پانچ سال کا مینڈیٹ دیا تھا، دیکھنا ہوگا کہ وزیر اعلی نے اسمبلی توڑنے کے اختیار کا استعمال درست کیا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ممکن ہے عدالت ریکارڈ کا جائزہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اسمبلی غلط توڑی گئی، ممکن ہے اسمبلی توڑنے کے اختیار کے غلط استعمال کے نتیجے پر پہنچنے سے اسمبلی بحال ہوجائے، اسمبلی کی بحالی کے فیصلے سے ممکن ہے یہ کرائسز ختم ہوجائے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جمہوریت میں سیاسی جماعتیں حکومت بناتی ہیں یہاں ایشو ہے کہ اسمبلی کی تحلیل اور عام انتخابات کیسے ہوں گے؟ اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس میں پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کو نوٹس کیا گیا تھا، موجودہ کیس اسپیکر رولنگ سے مختلف ہے۔ سماعت کے اختتام پر عدالت نے قرار دیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو گورنر کی مشاورت سے تاریخ دینے کا کہا، ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف الیکشن کمیشن اور گورنر نے اپیلیں دائر کیں، پشاور ہائیکورٹ میں بھی یہی مقدمہ 28 فروری کو سنا جائے گا، اسمبلیاں تحلیل ہونے کے چھ ہفتے بعد بھی انتخابات کی تاریخ کا معاملہ عدالتوں میں زیر التواء ہے جب کہ آئین نوے دنوں میں الیکشن کا کہتا ہے۔عدالت نے کہا کہ از خود نوٹس میں کچھ سوالات الیکشن کمیشن ایکٹ 27 اور 28 سے متعلق اٹھائے گئے، جسٹس اطہر من اللہ کے سوال کو ان سوالات میں شامل کیا جائے گا۔عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
Comments are closed.