اسلام آباد:چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے درمیان اچھی ریلیشن شپ کی وجہ سے ہم نے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کی اور این ایف سی ایوارڈ دیا۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں ایک بہتر پاکستان بنانے کے لئے کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو ایمل ولی خان نے فون کرکے انہیں اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ چیئرمین پیپلزپارٹی نے یہ باتیں اے این پی اور پیپلزپارٹی کے لیڈروں کے ساتھ باچا خان سنٹر میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں پارٹیوں کے کارکنوں نے بہت کامیابی اور بہادری کے ساتھ دہشتگردوں کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ ان کے والد صدر آصف علی زرداری نے اقوام متحدہ میں خیبرپختونخوا کا نام لیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پیپلزپارٹی ہی کی حکومت تھی جس نے کے پی کو اس کی شناخت دی۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ دونوں پارٹیاں اس نااہل اور ناجائز حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے اکٹھی ہیں۔ صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جہاں تک ٹیلیفون کالوں کا معاملہ ہے ان کی پارٹی کے کسی رکن کو ابھی تک کوئی کال نہیں موصول ہوئی۔ اگر کسی پارٹی کو کوئی شکایت ہے تو وہ ان سے اگلی ملاقات میں اس بارے پوچھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے اور یہ پیپلزپارٹی کا ہمیشہ ہی سے موقف ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جہاں کہیں بھی جاتے ہیں ان سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ ہم اس نااہل ، ناجائز اور سلیکٹڈ حکومت سے انہیں کب نجات دلوا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس حکومت کو چیلنج کرنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کریں گے کیونکہ یہ پاکستان کے ہر شخص کی آواز ہے جو اس حکومت کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے تنگ ہے۔ معیشت تباہ ہو چکی ہے اور اس کے مزدوروں کو اس کی محنت کا صلہ نہیں ملتا اور اس کے کسان کو اس کی فصلوں کی قیمت نہیں ملتی۔ چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ حکومت کو غیرمستحکم کرنے کے لئے احتجاج کرنا ہمارا جمہوری حق ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس حکومت کو جمہوری طریقے سے گھر بھیجیں۔ ہم جمہوری طریقے اختیار کر رہے ہیں کیونکہ ہم وہ لوگ نہیں جو پارلیمان اور پی ٹی وی پر حملے کرتے ہیں۔ ہمارا شروع ہی سے یہ موقف رہا ہے کہ پارلیمان میں اس حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لا کر حکومت کو گھر بھیجا جائے۔
پیپلزپارٹی اور اے این پی اس حکومت کے لئے میدان خالی چھوڑنا نہیں چاہتی۔ عمران کو ہٹانے کے لئے ہمیں صرف ایک مرتبہ جیتنا ہوگا جبکہ عمران کو حکومت میں رہنے کے لئے بار بار جیتنا ضروری ہے۔ اگر ہم اس مرتبہ کامیاب نہیں ہوئے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ بیٹھ جائیں گے بلکہ ہم دوبارہ آئیں گے۔ ہمارے لانگ مارچ سے وہ لوگ بے نقاب ہو جائیں گے جو اس نالائق حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارا موقف پہلے دن سے واضح ہے۔ اگر پی ڈی ایم کا مارچ وقت پر ہو جاتا تو حکومت ڈگمگا جاتی۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ اب حزب اختلاف کی دیگر پارٹیاں بھی ہمارے پیج پر آرہی ہیں۔ ہمیں حکومت کے اتحادیوں اور حکومت کے ناراض اراکین کو یہ باور کرانا ہوگا کہ اس سلیکٹڈ حکومت کو گھر بھیجنا ہی بہتر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی حیثیت سے یہ ہمارا کریڈٹ ہے کہ آئی ایم ایف سے کی گئی ڈیل پاکستان سے ڈیل نہیں بلکہ یہ پی ٹی آئی ایم ایف کی ڈیل ہے۔ ہم اس حکومت کو ہر فورم پر چیلنج کر رہے ہیں اور ہم انشااللہ کامیاب ہوں گے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب یہ حکومت ختم ہوتی ہے تو پی ایم ایل این کا حق ہے کہ اپنا وزیراعظم لائے اور اس کے بعد ہم سب مل کر انتخابی اصلاحات کریں اور نئے انتخابات منعقد ہوں۔ کالا باغ ڈیم کے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر اس سے کے پی ڈوب جاتا ہے تو یہ ممکن ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے سب سے زیادہ ڈیم بنائے ہیں اور ہماری توجہ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرکے ڈیم بنانے پر ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ دیگر اداروں کی جانب سے دخل اندازی ہمیشہ پیپلزپارٹی کے خلاف ہوتی رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود پیپلزپارٹی نے کبھی بھی انتخابی میدان نہیں چھوڑا۔ اگر ادارے نیوٹرل ہو جاتے ہیں تو تحریک عدم اعتماد منظور کرانا کوئی مشکل بات نہیں۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جن دہشتگردوں نے ہمارے سویلین خواتین، بچوں، پولیس اہلکاروں اور فوجیوں کو شہید کیا ہے ہمیں ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے۔ ہمیں ریاست کی رٹ قائم کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک یہ حکومت رہے گی صوبوں کے درمیان رابطہ کاری درست نہیں ہو سکتی۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اپنے اسپیکر اور اراکین پارلیمنٹ کو سندھ کی جیلوں سے آزاد نہیں کرا سکے تو وہ علی وزیر کو کیسے آزاد کرا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لئے قانونی طریقہ کار ہے جو اپنایا جا رہا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ علی وزیر کو جیل میں نہیں ہونا چاہیے۔
Comments are closed.