اسلام آباد : حکومت نے انتخابات پربات چیت کیلئے سپریم کورٹ سے مزید وقت مانگ لیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ معاملہ سیاسی عمل پر چھوڑا جائے۔ہم صرف سہولت کاری کرنا چاہتے ہیں۔ازخود نوٹس لینا چھوڑ دیئے ہیں۔آئین پرعمل کرنا ہے۔ہماری اور اسمبلی میں گفتگو کا جائزہ لیں۔جو بات یہاں ہورہی ہے اس کا لیول دیکھیں۔اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو ہمارا فیصلہ موجود ہے۔مناسب حکم جاری کرینگے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نتخابات ایک ساتھ کرانے کے حوالے سے درخواست پر سماعت کی۔دوران سماعت حکومتی وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیئے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ اور ایک دن انتخابات پراتفاق ہوا۔اسمبلی تحلیل کی تاریخ پراتفاق نہیں ہوسکا۔اسمبلی تحلیل سے پہلے بجٹ، ائی ایم ایف معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری لازمی ہے۔ملکی مفاد میں مذاکراتی عمل بحال کرنے کو تیارہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی ایم ایف قرضہ ذخائر میں استعمال ہوگا یا قرضوں کی ادائیگی میں؟۔۔کیا بجٹ آئی ایم ایف کے پیکج کے تحت بنتا ہے؟۔آئین میں انتخابات کیلئے 90 دن کی حد سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔۔ٹی وی پر دونوں فریقین کا مؤقف سنا۔مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کو لیکر بیٹھی نہیں رہے گی۔اپنے فیصلے پر عمل کرانے کیلئے آئین استعمال کرسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کہا گیا ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور راستہ نکالا۔عدالت نے احترام میں جواب نہیں دیا۔غصے میں فیصلے درست نہیں ہوتے۔اس لئے ہم غصہ نہیں کرتے۔آپ چار تین کی بحث میں لگے رہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے اسمبلیاں بحال کرنے کا نقطہ اٹھایا تھا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت قانون کی بات نہیں سیاست کرنا چاہتی۔ہم سیاست کا جواب نہیں دیں گے۔معاملہ سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیں تو کیا قانون پر عملدرآمد نہ کرائیں۔عدالت تحمل مظاہرہ کر رہی ہے لیکن اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔قانون پر عملدرآمد کیلئے قوم کے جوانوں نے قربانیاں دیں۔ہم بھی قربانیاں دینے کیلئے تیار ہیں۔تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے استدعا کی کہ عدالت 14مٸی کو انتخابات کے حکم پرعملدرآمد کرائے۔خواجہ سعد رفیق نے بتایا کہ حکومت اور تحریک انصاف کا بریک اپ نہیں ہوا۔مذاکرات میں صرف بریک آیا ہے۔پہلے بھی ملک ٹوٹ چکا ہے۔ایک صوبے میں الیکشن تباہی لائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نیک بیتی دکھانے کیلئے اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔دونوں فریقین کو لچک دکھانی چاہیے۔آپ کا اتفاق رائے ہوجائے تو امتحان سے نکل سکتے ہیں۔کوئی ہدایت دیں گے نہ ہی مذاکرات میں مداخلت کریں گے۔اگر چند دنوں میں معاملہ حل نہ ہوا تو پھر دیکھ لیں گے۔وزیراعظم شہبازشریف اور عمران خان مصروف لوگ ہیں۔ان کے نمائندے موجود ہیں۔ہمارے سامنے کالے کوٹ والے پیش ہوں، انہیں سننا پسند کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے شاہ محمودقریشی سے استفسار کیا کہ بتائیں کیا آپ مزید ان سے ملنا چاہتے ہیں۔اس پر شاہ محمود قریشی بولے ہم بہت پیچھے جا چکے ہیں۔فیصلہ نہ ہو تو آئین کیوں دائو پر لگائیں؟۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مناسب حکم جاری کریں گے جس کے بعد عدالت نےسماعت ملتوی کردی۔
Comments are closed.