اسلام آباد : سپریم کورٹ نے پنجاب الیکشن نظر ثانی کیس اور ریویو اینڈ ججمنٹ کیس میں اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کردیا۔دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کیسے پنجاب انتخابات کیس سنے اگر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ نافذ ہو چکا ہے؟ بتائیں کیسے ریویو ایکٹ پنجاب انتخابات نظرثانی کیس میں لاگو نہیں ہوتا؟چیف جسٹس نے کہا، نظر ثانی کیس نیا نہیں ہے اس پر پہلے بحث ہو چکی،الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل نظرثانی کا دائرہ کار بڑھانے پر تھے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پنجاب انتخابات الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت ہوئی۔سماعت شروع ہوتے ہی چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے وکیل سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نظر ثانی پر نئے قانون پر آپ کا کیا موقف ہے ؟ جس پر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا نظر ثانی پر نیا قانون آئین سے متصادم اور پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا تسلسل ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے پاس نئے نظر ثانی قانون کےخلاف کچھ درخواستیں آئی ہیں، نظر ثانی ایکٹ کے معاملے کو کسی اسٹیج پر دیکھنا ہی ہے، اٹارنی جنرل کو نوٹس کر دیتے ہیں، نظر ثانی ایکٹ پر نوٹس کے بعد انتخابات کیس ایکٹ کے تحت بنچ سنے گا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آخری سماعت پر الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا 8 اکتوبر انتخابات کی تاریخ برقرار ہے،الیکشن کمیشن کے وکیل نے 8 اکتوبر کو انتخابات سے متعلق کہا مجھے معلوم نہیں، یہ ایک آئینی سوال ہے،آئین ایک خوبصورت دستاویز ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ 14 مئی کی رات 12 بج کر ایک منٹ پر آئین مر چکا ہے،آئین کی وفات کی دو وجوہات ہیں،ایک وجہ ہے کہ 90 روز میں انتخابات کے قانون کو فالو نہیں کیا گیا ،دوسری وجہ ہے کہ انتخابات کروانے کے سپریم کورٹ کے واضح حکم پر عمل نہیں کیا گیا۔ علی ظفر نے کہا کہ ہر گزرتا دن آئین کے قتل کی یاد دلاتا ہے،اس وقت ملک کے دو صوبے جمہوریت،اسمبلی اور عوامی نمائندگی کے بغیر ہیں، اس وقت آئین پر کوئی عمل نہیں ہے،عدالت انتخابات نظر ثانی کا فیصلہ ریویو ایکٹ کے فیصلے تک روک سکتی ہے، پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس میں دلائل تقریبا مکمل ہو چکے ہیں اسلیے کیس مکمل کر لینا چاہئے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر ریویو ایکٹ ہم پر لاگو ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل کو لارجر بنچ میں دوبارہ سے دلائل کا آغاز کرنا ہو گا، عدالت کیسے پنجاب انتخابات کیس سنے اگر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ نافذ ہو چکا ہے؟آپ بتائیں کہ کیسے ہم پر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس میں لاگو نہیں ہوتا؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ کیس کی سماعت ملتوی نہ کرے،نئے قانون کی شق 5 کا اطلاق پنجاب الیکشن کیس پر نہیں ہوتاہے،مجھے امید ہے عدالت دونوں قوانین کو کلعدم قرار دے گی،جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں پنجاب الیکشن کیس پرانے قانون کے تحت سنا جائے، وکیل علی ظفر نے کہا کہ جی میں یہی کہنا چاہتا ہوں کیس پرانے قانون کے تحت سنا جائے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ یہ بلکل نیا کیس نہیں ہے، 14 مئی کا انتخابات کرانے کا معاملہ قومی مسئلہ ہے، 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کے فیصلے کو واپس لینا ممکن نہیں ہے، 14 مئی کا فیصلہ ایک اصول طے کرتا ہے کہ 90 دن سے الیکشن آگے نہیں جا سکتا، ہم نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے پوچھا کہ کیا 9 مئی کے بعد 8 اکتوبر کو الیکشن ہو جائیں گے، الیکشن کمیشن کے وکیل کے پاس ہمارے سوال کا جواب نہیں تھا، آئین ایک خوبصورت دستاویز ہے جسے ہم سب مانتے ہیں۔ تحریک انصاف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم ،اراکین اسمبلی ،ججوں سمیت سب نے آئین کے دفاع کا حلف لیا ہوا ہے،آرٹیکل 5 بڑا واضح ہے،میرے لیے ہر جج قابل احترام ہے،ہر جج کو سیلوٹ پیش کرتا ہوں کیونکہ وہ انصاف فراہم کرنے کا کام کر رہے،میں نے کبھی کسی جج پر اعتراض نہیں کیا،پارلیمنٹ سے ریویو ایکٹ پانچ منٹ میں منظور کروایا گیا،یہ قانون بغیر کسی بحث کے منظور کروایا گیا،یہ قانون کمیٹی کو بھی نہیں بھیجا گیا،عدلیہ کے اختیارات کم نہیں کیے جا سکتے۔
تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے سپریم کورٹ نظر ثانی کے نئے قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کیس کے دوران حکومتی وکیل قانون کے بجائے ریاضی کا سہارا لیتے رہے،بینچ پر اعتراض اور کبھی 4-3 کی بحث کی گئی،حکومت نے اس سے پہلے سپریم کورٹ سے متعلق قانون بنایا، دوسرے قانون پرلگائی گئی پابندی اس ایکٹ پر بھی لاگو ہو گی، نیا قانون ان پر لاگو ہوگا جنہوں نے نظر ثانی دائر نہیں کی،الیکشن کمیشن پہلے ہی نظر ثانی دائر کر چکا ہے،میرے مطابق عدالت انتخابات سے متعلق کیس سن سکتی ہے۔ عدالت دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ کو دوسرے کیس سے مشروط کر سکتی ہے۔مجھے یقین ہے کہ عدالت نئے ایکٹ کے آئین سے متصادم ہونے کے نتیجے پر پہنچے گی،عدالت الیکشن کمیشن کی نظر ثانی کو مکمل کرنے کی اجازت دے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر قانون موجودہ کیس پر لاگو نہیں ہوتا تو اپکو ہمیں مطمئن کرنا ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ نظر ثانی کیس میں ابھی طریقہ کار رکاوٹ ہے،الیکشن کمیشن تو پہلے ہی نظر ثانی کی وسعت پر دلائل دے چکا ہے،14مئی کو انتخابات کا فیصلہ کو اب واپس لانا ممکن نہیں،دیکھنا ہے کہ کب اور کہاں 90 روز کی مدت کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے،اگر 90 روز کی مدت کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو اسکے نتائج بھی دیکھنا ہیں،میں نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو 8 اکتوبر کی تاریخ پر پر اعتماد ہونے بارے سوال کیا،8 اکتوبر کو انتخابات کی تاریخ پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے پر اعتماد ہونے سے انکار کیا،الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ تاریخ دینا کمیشن کا کام ہے،دوران سماعت ایسی خط و کتابت سامنے ائی جو کہ کمیشن کی نااہلیت کو ظاہر کرتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین خوبصورت دستیاویز جس کو سب مانتے ہیں،ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں 90 روز سے الیکشن اگے گئے۔عدالت نے پنجاب الیکشن نظر ثانی کیس اور ریویو اینڈ ججمنٹ کیس میں اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے منگل تک ملتوی کردی۔
Comments are closed.