لاپتہ افراد کو تلاش کروں گا، وزیراعظم کی عدالت کو یقین دہانی
اس معاملے کے حل کےلئے کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا،سادہ آدمی ہوں۔اللہ مجھے معاف کرے،بطور وزیراعلیٰ پنجاب اپنا خون پسینہ بہایا،اللہ نے چاہا تو یہاں کوئی لاپتہ نہیں رہے گا، ایک چیف ایگزیکٹو ملک کا ڈکٹیٹر تھا،میں اور میرا بھائی اس شخص کے متاثرین میں سے ہیں،یہ ملک اس شخص کی وجہ سے بہت متاثر ہوا:شہبازشریف کی اسلام آباد ہائیکورٹ پیشی، آئین پر عمل نہیں ہوتا تو سب کچھ پیک کر کے گھر جانا چاہیے،اس عدالت کے پاس آئین کے تحت فیصلہ دینے کا آپشن موجود ہوتا ہے،یا تو آپ کو کہنا پڑیگا کہ ملک میں آئین مکمل طور پر نافذ نہیں،اگر یہ بات ہے تو پھر یہ عدالت کسی اور سے پوچھے گی، چیف جسٹس،حکومت کو 2 ماہ کی مہلت
اسلام آباد : وزیراعظم شہبازشریف لاپتہ افراد کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ پیش ہوگئے۔بولے یقین دلاتا ہوں اس معاملے کے حل کےلئے کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا۔لاپتہ افراد کی تلاش کےلئے سب اقدامات کروں گا۔کبھی غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا۔سادہ آدمی ہوں۔اللہ مجھے معاف کرے۔بطور وزیراعلیٰ پنجاب اپنا خون پسینہ بہایا۔اللہ نے چاہا تو یہاں کوئی لاپتہ نہیں رہے گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین پر عمل نہیں ہوتا تو سب کچھ پیک کر کے گھر جانا چاہیے۔عدالت نے حکومت کو 2 ماہ کا وقت دے دیا۔دوران سماعت سابق صدرپرویزمشرف کا ذکر بھی چھڑ گیا۔
صحافی مدثرنارو سمیت لاپتہ افراد کی بازیابی کا کیس۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔ وزیراعظم شہبازشریف قانون۔داخلہ اور اطلاعات کے وفاقی وزرا کے ہمراہ اسلام آباد ہائیکورٹ پیش ہوئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم صاحب!لاپتہ افراد بڑا مسئلہ ہے۔ریاست کا وہ ردعمل نہیں آ رہا جو ریاست کی ذمہ داری ہے۔بدقسمتی سے 9 سال چیف ایگزیکٹو رہنے والے نے فخریہ لکھا ہے کہ لوگوں کو اٹھا کر بیرون ملک بھیج دیتے ہیں۔اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ریاست کی پالیسی ہے۔آپ نے کمیٹی تشکیل دی جس پر عدالت آپ کی مشکور ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔اس لیے آج آپ کو تکلیف دی۔عدالت نے مناسب سمجھا کہ آپ کو بتایا جائے کہ مسئلہ کیا ہے۔لاپتہ افراد کے لیے کمیشن بنا لیکن اس کی سماعتوں سے ان خاندانوں کے دکھوں میں اضافہ ہوا۔ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود ہر ایک کے گھر خود جاتے۔ایگزیکٹو کا کام ہے کہ شہریوں کا تحفظ یقینی بنائے۔نیشنل سیکیورٹی کے تمام معاملات سویلین چیف ایگزیکٹو کی طرف سے دیکھے جانے چاہئیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت کے پاس آئین کے تحت فیصلہ دینے کا آپشن موجود ہوتا ہے۔یا تو آپ کو کہنا پڑیگا کہ ملک میں آئین مکمل طور پر نافذ نہیں۔اگر یہ بات ہے تو پھر یہ عدالت کسی اور سے پوچھے گی۔آپ اس وقت سیلابی صورتحال میں کام کر رہے ہیں۔عدالت سراہتی ہے کہ آپ اس معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے عدالت آئے۔آپ کا وقت بہت قیمتی ہے۔ہم زیادہ وقت نہیں لیں گے۔
وزیراعظم شہبازشریف روسٹرم پر آئے اور کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ 20 سال پرانا ہے۔ریاست کا سربراہ ہونے کے ناطے یہ میرا فرض ہے کہ میں پتہ کروں کہ مدثر نارو کہاں ہیں۔میں اس خالق کائنات اور اس کائنات کو اس معاملے پر جواب دہ ہوں۔میں یہاں کوئی لیم ایکسکیوز دینے نہیں آیا۔ مدثر کے تین سالہ بیٹے سے ملا۔اس نے مجھے کہا کہ وزیراعظم میرے ابو کو مجھ سے ملا دیں۔۔یہ سوال میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔اب ضرورت ہے کہ آگے بڑھ کر اس کے والد کی تلاش کی جائے۔
وزیراعظم کاکہنا تھا کہ لاپتہ افراد کمیٹی کی خود سربراہی کرونگا اور رپورٹ عدالت میں پیش کرونگا۔وہ رپورٹ کہانی نہیں بلکہ حقائق پر مبنی ہو گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس کیس ہے دو بھائیوں کو اسلام آباد سے پولیس یونیفارم میں اٹھا لیا گیا۔ایک چیف ایگزیکٹو نے کہا کہ لوگوں کو اٹھانا ریاست کی پالیسی تھی۔اگر یہ ریاست کی پالیسی تھی تو یہ ریاست کی ذمہ داری تھی۔
وزیراعظم نے کہا کہ جس چیف ایگزیکٹو کی آپ بات کر رہے ہیں۔وہ ملک کا ڈکٹیٹر تھا۔۔میں اور میرا بھائی اس شخص کے متاثرین میں سے ہیں۔اس چیف ایگزیکٹو کے دور میں ہمیں ملک بدری میں رہنا پڑا۔یہ ملک اس شخص کی وجہ سے بہت متاثر ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت سول سپرمیسی کو یقینی بنائے گی۔ملک میں کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔ایک بھی شخص اگر لاپتہ ہوتا ہے تو چیف ایگزیکٹو براہ راست ذمہ دار ہے۔یقینی بنائیں کہ کسی کو لاپتہ نہ کیا جائے۔یہ ریاست کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ایشوز ہونگے لیکن حل پارلیمنٹ اور چیف ایگزیکٹو نے کرنا ہے۔اگر قانون کی خلاف ورزی ہوتی رہی تو ہر حکمران ذمہ دار ہے۔یہ عدالت آئین کو دیکھے گی اور اس کے بعد ایک فیصلہ دیگی۔
وزیراعظم کی ہائیکورٹ سے روانگی کے بعد اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ آپ نے وزیراعظم کی ذمہ داری لگائی ہے ہم کام کریں گے۔آپ ہمیں تھوڑا موقع دیں۔آپ کو شکایت نہیں ہو گی۔اگر ہم ذمہ داری پوری نہ کر سکے تو میں آ کر کہوں گا کہ میں فیل ہو گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ ذمہ داری نہیں لے سکتے تو پھر اپنا آفس چھوڑ دیں۔
وزیر قانون عطا تارڑ کاکہنا تھا کہ اتحادیوں کی حکومت ہے۔یہ مسئلہ جب بھی حل ہوا۔ڈائیلاگ سے ہی ہوگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ جو چیزیں خراب ہوئی ہیں۔اس کا حل یہی ہے کہ جس ادارے کا جو کام ہے وہ وہی کام کرے۔اگر چیف ایگزیکٹو کہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں میرے ماتحت نہیں تو وہ آئین سے انحراف تسلیم کرتا ہے۔جو چیف ایگزیکٹو یہ تسلیم کر لے اسکو پھر عہدہ چھوڑ کر گھر جانا چاہیے۔
عدالت نے وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ کی استدعا پر لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے حکومت کو 2 ماہ کا وقت دے دیا۔
Comments are closed.