استعفے منظور نہیں ہو رہے تو تحریک انصاف عدالت کیوں نہیں آتی؟سپریم کورٹ

بڑی سیاسی جماعت اسمبلی سے باہر ہو تو وہ فعال کیسے ہوگی،پی ٹی آئی والے تنخواہ بھی لے رہے ہیں اور اسمبلی بھی نہیں جاتے،یہ تمام سیاسی بحث ہے جس کو سیاسی مقام پر ہونا چاہیے،جب عوامی مفاد کی بات ہو تو پی ٹی آئی کا،اسمبلی میں نا ہونے کا سوال غیر موثر ہو جاتا ہے، ججز کے نیب ترامیم کیس میں ریمارکس

اسلام آباد : سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف درخواست پرسماعت کے دوران تحریک انصاف کے استعفوں کا ذکر چھڑ گیا۔ججز نے ریمارکس دیئے کہ استعفے منظور نہیں ہو رہے تو پی ٹی آئی عدالت سے رجوع کیوں نہیں کرتی۔اسمبلی اسی صورت چھوڑی جا سکتی ہے جب رکن جسمانی طور پر جانے کے قابل نہ رہے۔بڑی سیاسی جماعت اسمبلی سے باہر ہو تو وہ فعال کیسے ہوگی۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی والے تنخواہ بھی لے رہے ہیں اور اسمبلی بھی نہیں جاتے۔خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سیاسی حکمت عملی کے تحت اسپیکر استعفے منظور نہیں کر رہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ زبانی باتیں نہ کریں، اسمبلی نہیں پسند تو سیٹیں بھی چھوڑیں۔جس پر وکیل نے کہا ہم تو روزانہ انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ تمام سیاسی بحث ہے جس کو سیاسی مقام پر ہونا چاہیے۔جب عوامی مفاد کی بات ہو تو پی ٹی آئی کا۔اسمبلی میں نا ہونے کا سوال غیر موثر ہو جاتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ استعفوں کا سوال سیاسی نہیں آئینی ہے۔استعفے منظور نہیں ہو رہے تو پی ٹی آئی عدالت سے رجوع کیوں نہیں کرتی؟۔
خواجہ حارث کے دلائل دیئے کہ سیاسی سوالات کا قانونی جواب نہیں دیا جا سکتا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ سیاسی معاملے پرعدالت کو تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اسمبلی جانا یا نہ جانا پی ٹی آئی کا سیاسی فیصلہ ہے۔اداروں کو فعال کرنا ہوگا۔بڑی سیاسی جماعت اسمبلی سے باہر ہو تو وہ فعال کیسے ہوگی۔یہ بھی سوال ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس کہا کہ ایوان میں قانون پربحث ہی نہ ہو تو استعفے کے علاوہ کیا حل ہے؟۔عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل مکمل کرلئے۔جنوری کے دوسرے ہفتے حکومت کے وکیل مخدوم علی خان دلائل کا آغاز کرینگے۔

Comments are closed.