نواز شریف کے لیے ریلیف مانگنے والے صحافی غائب۔۔کسی مفرور کے لیے کوئی ریلیف نہیں،عدالت

  اسلام آباد ہائیکورٹ نے مفرور اور اشتہاری ملزمان کی تقاریر نشر کرنے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی ۔ دوران سماعت چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ہے کہ کسی مفرور ملزم کو ریلیف دینا مفاد عامہ میں نہیں ،ایک کو ریلیف دیا تو ہر مفرور چاہے گا اسے آن ایئر ٹائم دیا جائے۔

 عدالت نے وکیل سلمان اکرم راجا سے استفسار کیا کہ آپ ریلیف کس کے لیے مانگ رہے ہیں؟ جو آپ مانگ رہے ہیں اس حکم کا کسی کو تو فائدہ ہوگا؟ پرویز مشرف کیس میں پہلے ہی ہم فیصلہ دے چکے ہیں کہ کسی مفرور کے لیے کوئی ریلیف نہیں۔درخواست گزار بتا دیں کہ کس کے لیے ریلیف چاہارہے ہیں؟ اور پیمرا نے کس پر پابندی عائد کی ہے؟ یہاں پر موجود درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں، اس آرڈر سے دو لوگ متاثر ہیں۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ دو نہیں ہزارواں افراد متاثر ہیں، عدالت نے ریمارکس دئیے کہ جو متاثرہ فریق ہے وہ پیمرا کے حکم کےخلاف اپیل کرسکتا ہے،ساتھ ہی عدالت نے پوچھا کہ درخواست گزار کس مفرور کا انٹرویو آن ایئر کروانا چاہتے ہیں؟ کیا اس طرح پھر تمام مفرور ملزمان کو اجازت دی جائے؟ مفرور ملزم کی تو شہریت منسوخ ہوسکتی ہے ۔ مفرور ملزم کوپہلے عدالت کے سامنے سرنڈر کرنا ہوتا ہے پھر وہ قانونی حقوق سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں،اس کیس میں مفرور ملزم خود عدالت سے رجوع نہیں کر رہے۔

عدالتی ریمارکس پر سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ معلومات تک رسائی کا ہمارا حق متاثر ہورہا ہے، آرٹیکل 19 اے آزادی اظہار رائے کی اجازت دیتا ہے، اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ مفرور ہونا بہت سنجیدہ بات ہے، اس طرح ہر مفرور چاہے گا اسے آن ایئر ٹائم دیا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے مفرور ملزم کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی مگر الزام عدلیہ پر لگا، عدالت پیمرا کا آرڈر منسوخ کرتی ہے تو تمام مفرور کو آن ایئر جانے کا حق ملے گا،عدالت مفرور ملزمان کو ریلیف نہیں دے سکتی۔

CJ Athar Minallah-News Diplomacy

وکیل سلمان اکرم راجا نے موقف اختیا رکیاکہ پیمرا کا آرڈر صحافیوں اور میڈیا پرسنز کے لیے ہے ،اس لیے وہ متاثرہ فریق ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ پورے جوڈیشل سسٹم کا امتحان ہے، آپ چاہتے ہیں کہ تمام مفرور ملزمان کو ریلیف دیا جائے، کسی مفرور ملزم کو ریلیف دینا مفاد عامہ میں نہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کی درخواست سے ریلیف تمام مفرور ملزمان کو ملے گا جو عدالت نہیں دینا چاہتی، اگر کسی کو عدالتی نظام پر اعتماد نہیں اور وہ بھاگ جاتا ہے تو اسے عدالت سرینڈر کرنے تک ریلیف نہیں دیتی، اگر کوئی مفرور ہو تو وہ عدالت کا غیر قانونی آرڈر بھی چیلنج نہیں کر سکتا۔

عدالت نےکہا کہ اظہار رائے کی آزادی بہت ضروری ہے مگر یہاں پر سوال کچھ مختلف ہے، آپ درخواست گزاروں سے اس سے متعلق مزید ہدایات لے لیں اور آئندہ سماعت پر درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیں۔ عدالت نے مزید سماعت 16 دسمبر تک ملتوی کردی ۔

Comments are closed.