وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے واضح کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں دراندازی اور دہشت گردانہ کارروائیاں بالکل بند ہونی چاہئیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان اپنا سخت موقف برقرار رکھے گا اور جہاں ضرورت ہوئی طاقت کا بھرپور استعمال کرے گا، جبکہ کابل حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلح گروہوں کی پشت پناہی روکیں تاکہ علاقائی امن ممکن بن سکے۔
جوہری موقف اور واضح انتباہ
اسلام آباد — وزارتِ دفاع کے سینہ سُپرد ذرائع کے مطابق میڈیا سے گفتگو میں خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان کی سرزمین سے دراندازی اور دہشت گردانہ مراکز برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ ان کے بقول، “جہاں ضرورت ہوئی ہم طاقت کا بھرپور استعمال کریں گے”۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور وہ کسی بھی مکارانہ کوریج یا پسِ پردہ حمایت کو نظرانداز نہیں کرے گا۔
پشت پناہی بند کی جائے
وزیرِ دفاع نے افغان طالبان رجیم پر واضح تنبیہ کی کہ وہ اپنے دائرہِ اختیار میں موجود گروہوں کی حمایت بند کرے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ افغانستان میں دہشت گردی کے مراکز بن چکے ہیں اور اگر کابل نے ان کی سرکوبی نہ کی تو پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے سخت اقدامات اٹھانے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
ثالثی اور دوطرفہ تعلقات
خواجہ آصف نے ثالثوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ثالثین کو دونوں ہمسایوں کے مفادات کا مکمل خیال رکھنا ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ دہشت گردی کی روک تھام کے بغیر دو طرفہ تعلقات میں حقیقی بہتری ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے امن کی ضمانت کابل کو دینا ہوگی تاکہ باہمی اعتماد کی فضا قائم ہو سکے۔
کوئی رعایت نہیں
وزیرِ دفاع نے کہا کہ چاہے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہو یا بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، یا دیگر ممنوعہ انسدادِ ریاستی گروہ — پاکستان میں دہشت گردی کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی سطح پر دہشت گردی کے خلاف آپریشنز اور قانونِ نافذ کرنے والے اداروں کے اقدامات تیز اور مؤثر رہیں گے۔
خیبرپختونخوا اور وفاقی موقف
خواجہ آصف نے صوبائی سیاست کی جانب بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا کی حکومت آہستہ آہستہ تنہائی کا شکار ہو رہی ہے، جبکہ سابق فاٹا کے عوام وفاقی حکومت کے مخلص ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض سیاسی قوتیں اپنے ذاتی مفادات کے تحت بیانات دیتی رہتی ہیں، تاہم قومی مفاد کا تحفظ اولین ترجیح رہے گا۔
بین الاقوامی اور علاقائی مضمرات
ماہرینِ خارجہ کے مطابق پاکستان کا سخت مؤقف خطے میں سیکیورٹی کی صورتِ حال کو مزید بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا سکتا ہے۔ اگر افغانستان کی حکام نے مسلح گروہوں کے خلاف ٹھوس اقدامات نہ کیے تو خطے میں تناؤ بڑھنے کا خطرہ ہے جس کے اثرات سرحدی تجارت، انسانی بہاؤ اور مہاجرین کے مسائل تک پھیل سکتے ہیں۔ علاقائی ثالثیں اور عالمی ادارے اس دباؤ کو کم کرنے اور مذاکرات کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
نتیجہ
وزیرِ دفاع نے واضح کیا کہ پاکستان امن چاہتا ہے مگر امن کی قیمت یہ ہے کہ افغان سرزمین پر موجود دہشت گردانہ سرگرمیاں ختم ہوں۔ انہوں نے زور دیا کہ قانون، خودداری اور حفاظتِ ریاست کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان تمام ممکنہ آپشنز استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے تاکہ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
Comments are closed.