پاکستان میں انشورنس سیکٹر کو جعلی کلیمزکے سنگین بحران کا سامنا

صدام حسین

اسلام آباد: پاکستان میں انشورنس سیکٹر کو جعلی کلیمزکے سنگین بحران کا سامنا ہے جس سے یہ شعبہ مسلسل کمزور ہو رہا ہے۔ نقصان میں چلنے والی فیکٹریوں کے مالکان کارخانوں سے مشینری اور سامان نکال کر آگ لگا دیتے ہیں اور پھر کروڑوں روپے کے کلیم دائر کر دیتے ہیں۔ کمپنیوں کے انکار پر انھیں حملوں دھمکیوں میڈیا ٹرائل اور سرکاری افسران کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پہلے مستحکم کمپنیوں سے انشورنس کروائی جاتی ہے اور بعد میں انھیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سیالکوٹ میں پیش آنے والے ایک واقعے نے اس دھندے کی سنگینی کو مزید اجاگر کیا ہے۔زرائع کے مطابق عید کی چھٹیوں کے دوران ایک فیکٹری میں آگ لگائی گئی اور فائر برگیڈ بھی چار دن تک نہیں آئی۔ کلیم کے بعد جب انشورنس کمپنی نے مشینری اور اسٹاک کے ثبوت طلب کیے تو فیکٹری مالکان نے کمپنی کے ہیڈ آفس پر حملہ کروا دیا اور سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا مہم شروع کی گئی۔

دو کریڈٹ ریٹنگ کمپنیوں کی جانب سے ڈبل اے پلس کی ریٹنگ رکھنے والی ملک کی پانچویں بڑی کمپنی ہر سال اربوں روپے کے جائز کلیم ادا کر رہی ہے جس کے انکار پر ریگولیٹر سے بھی جھوٹی شکایت کی گئی۔ جعلی کلیمز کے دھندے سے کئی کمپنیوں کا کیش فلو متاثر،تنخواہوں کی ادائیگی اور آپریشنل اخراجات مشکل ہو رہے ہیں جبکہ عام شہریوں کے انشورنس کلیمز بھی خطرے میں ہیں۔ انشورنس سیکٹر کاحجم تقریباً 3554 ارب روپے ہے۔ ہر سال 450 ارب کے کلیم ادا جبکہ پونے سات سو ارب روپے کا پریمیم وصول کیا جاتا ہے جس سے ڈھائی لاکھ گھروں کا چولہا جلتا ہے جسے تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے۔ جعلسازوں کو لگام نہ دی گئی تو کئی کمپنیاں دیوالیہ ہو سکتی ہیں۔ جعلسازی سے کاروباری لاگت میں اضافہ، انشورنس مہنگی ہونے سے اسکا استعمال کم اور پراسسنگ ٹائم بڑھ رہا ہے۔ اس شعبہ میں کام کرنے والوں نے وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور ریگولیٹری اداروں سے اپیل کی ہے کہ اس مافیاکے خلاف فوری کارروائی کر کے اس دھندے کو ختم کیا جائے۔

Comments are closed.