ججز قابل احتساب، پیسے کے قریب بھی نہیں جا سکتے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال

قانون کو آئین کے مطابق ہونے پر ہی آگے بڑھنا چاہئے،عدالتیں سیاسی فیصلے کرنے کی جگہ نہیں،عدالت متنازعہ معاملات پر فیصلے کرنے لگے تو کیا مزید تنازعات پیدا ہوتے ہیں؟،ضروری نہیں قانون کو کالعدم ہی قرار دیا جائے،قانون کو کالعدم قرار دینے کے علاوہ بھی عدالت کے پاس آپشن موجود ہیں،قانون کو آئین کے مطابق ہونے پر ہی آگے بڑھنا چاہئے، نیب ترامیم سے متعلق کیس میں ریمارکس

اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نیب ترامیم سے متعلق کیس میں اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا ضروری نہیں قانون کو کالعدم ہی قرار دیا جائے۔قانون کو کالعدم قرار دینے کے علاوہ بھی عدالت کے پاس آپشن موجود ہیں۔قانون کو آئین کے مطابق ہونے پر ہی آگے بڑھنا چاہئے۔عدالتیں سیاسی فیصلے کرنے کی جگہ نہیں ہیں۔عدالت متنازعہ معاملات پر فیصلے کرنے لگے تو کیا مزید تنازعات پیدا ہوتے ہیں؟۔ججز عوامی اعتماد کے ضامن اور قابل احتساب ہیں۔ججز پیسے کے قریب بھی نہیں جا سکتے۔سپریم کورٹ کو ایک معاملے میں فنڈز ملے وہ اسٹیٹ بنک میں جمع کرا دیئے۔آج بھی انتظار کر رہے ہیں کہ فنڈز استعمال ہوں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے نیب ترامیم کےخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔دوران سماعت عمران خان کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیئے کہ نیب قانون میں ترمیم کے وقت ارکان اسمبلی کی اکثریت نے منظوری دی۔نیب ترامیم کی منظوری کے وقت 159 ممبران اسمبلی موجود تھے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ ہے کہ قانون سازی کے وقت اپوزیشن کا ہونا ضروری ہے۔سوال یہ ہے کہ عدالت نے آئین کا دفاع اور تحفظ کیسے کرنا ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ فیصلہ کرنے میں عدالت کہاں اور کس حد تک جا سکتی ہے۔پبلک آفس ہولڈرز قابل احتساب ہیں۔اگر حالیہ نیب ترامیم سے احتساب کا معیار گرا ہوا ہے تو عدالت ان کو برقرار کیسے رکھ سکتی ہے؟۔

چیف جسٹس نے کہا کمہ موجودہ کیس میں نیب قانون کی بہتری دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا معاشرہ کرپشن کی بیماری کا شکار ہے۔عوامی مفاد اور انفرادی فائدہ اٹھانے والوں کے درمیان توازن ہونا چاہئے۔سوال یہ ہے کہ عدالت نے آئین کا دفاع اور تحفظ کیسے کرنا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر نیب ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم ہوئیں تو ہی عدالت آپشنز پر غور کرے گی۔وکیل بولے کوئی بھی ایسا قانون قائم نہیں رہ سکتا جو بنیادی حقوق سے متصادم ہو۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کیس میں سیاسی تنازعہ بھی ہے۔ہمارا معاشرہ کرپشن کی بیماری کا شکار ہے۔عوامی مفاد اور انفرادی فائدہ اٹھانے والوں کے درمیان توازن ہونا چاہئے۔۔جب سے پاکستان بنا انسداد کرپشن قوانین بنے ہوئے ہیں۔انسداد کرپشن قوانین کی وجہ سے ہی عوامی عہدیدار قابل احتساب ہیں۔ہم نے سماجی یا سیاسی مسائل کو نہیں دیکھنا۔اعتماد ہی تمام معاملات کا مرکز ہے۔پبلک آفس کیلئے ڈاکٹرائن آف ٹرسٹ ضروری ہے۔عدالت کو پارلیمنٹ پر اعتماد ہے مگر عوام کا اعتماد عدلیہ پر ہے۔کچھ بنیادی لوازمات ہیں جس پر عدالت نے بھی عمل کرنا ہے۔عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی۔

Comments are closed.