آڈیو لیکس سے قومی سلامتی پرسوال اٹھا،ہمیں جواب چاہئے، بلاول بھٹو

معاملہ انتہائی حساس،دنیا بھر میں اس طرح کی ریکارڈنگز عموماً انٹیلی جنس ایجنسیاں کرتی ہیں،وزیرِ اعظم چاہے عمران خان ہوں یا شہباز شریف۔اس سے قومی سلامتی کا سوال پیدا ہوا ہے،ہمیں افغان معیشت کی بحالی اور افغان عوام کو حقوق دلانے کے لیے انہیں مالی وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے،عمران خان کی حکومت گرانے میں فوج کا کردار نہیں، میں اور میری کی جماعت کبھی بھی فوج مخالف نہیں تھی،بھارت کی جانب ہاتھ آگے بڑھانا فی الحال ممکن نہیں، وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا وائس آف امریکہ کو انٹرویو

وزیرِخارجہ بلاول بھٹو نے وزیر اعظم آفس کی آڈیو لیکس معاملے کو انتہائی حساس قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم چاہے کوئی بھی ہو اس آڈیو لیکس سے قومی سلامتی کا سوال پیدا ہواہے۔دنیا بھر میں اس طرح کی ریکارڈنگز عموماً انٹیلی جنس ایجنسیاں کرتی ہیں۔لہذٰا ہمیں اس کا جواب چاہیے۔

امریکہ کے دورے پر آئے ہوئے بلاول بھٹو نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے آڈیو لیکس معاملے کی انکوائری کا حکم دیا ہے جس کے نتائج کا ہم سب کو انتظار رہے گا۔ ہم اس عمل کی مذمت کرتے ہیں۔جب وزیر اعظم کے دفتر کا معاملہ ہو تو وزیراعظم چاہے عمران خان ہوں یا شہباز شریف۔اس سے قومی سلامتی کا سوال پیدا ہوا ہے۔

خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور کالعدم تحریکِ طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ یہ مذاکرات گزشتہ دورِ حکومت میں شروع ہوئے تھے اور بات سیز فائر تک پہنچ گئی تھی۔ہمارا شروع سے ہی یہ مؤقف رہا ہے کہ پارلیمان کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔جس کے بعد پارلیمان کو اس پر بریفنگ دی گئی۔ لہذٰا اب بھی ہمارا یہ اصرار ہے کہ یہ مذاکراتی عمل پارلیمان کی زیر نگرانی ہی ہونا چاہیے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا اگر ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں خواتین اور دیگر گروپس کو حقوق ملیں تو ہمیں طالبان کے ساتھ رابطے میں رہنا ہو گا۔ ان کے منجمد فنڈز جاری کرنا ہوں گے کیوں کہ وہ افغان عوام کے فنڈز ہیں۔ ہمیں یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ غربت, دہشت گردی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ہمیں افغان معیشت کی بحالی اور افغان عوام کو حقوق دلانے کے لیے انہیں مالی وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں حالیہ سیلاب اور بیرونی امداد سے متعلق ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہمیں اس سلسلے میں امریکہ اور بین الاقوامی کمیونٹی سے جو رسپانس ملا ہے ، میں اس پر بہت مطمئن ہوں۔چین کے قرضوں میں ریلیف کے سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ بلنکن کی تجویز پر بلاول کا کہنا تھا کہ ابھی ہم سیلاب سے نمٹنے کے ابتدائی حالات سے گزر رہے ہیں۔ اگر قرضوں میں ریلیف کی ضرورت پڑی تو ہم اس سلسلے میں سب سے بات کریں گے۔

پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری لانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی سطح پر اس سلسلے میں کافی کوششیں کر چکا ہے۔ 2010 میں پاکستان نے یک طرفہ طور پر تجارت شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن 2019 کے بعد سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے عوام مخالف اقدامات کی وجہ سے حالات بہت بدل چکے ہیں۔بھارت میں مسلمانوں کے خلاف اقدامات نے بھی اس صورتِ حال کو متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے فی الحال پاکستان کی جانب سے ہاتھ آگے بڑھانا ممکن نہیں ہے۔

بلاول بھٹو نے عمران خان کے اس الزام کو مسترد کر دیا کہ ان کی حکومت گرانے میں امریکی سازش اور پاکستانی فوج کا ہاتھ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم عمران خان کی پالیسیوں کی وجہ سے انہیں ہٹانے کے لیے تین سال سے سیاسی جدو جہد کر رہے تھے۔بلاول بھٹو نے اس تاثر کی نفی کی کہ بھٹو فیملی اور ان کی پارٹی کی جدو جہد فوج کے خلاف رہی ہے اور اب وہ فوج کی ‘بی ٹیم’ بن کر حکومت میں آئے ہیں۔وہ اور ان کی جماعت کبھی بھی فوج مخالف نہیں تھی۔ لیکن ان کی جدوجہد مسلسل جمہوریت کے لیے تھی اور ہے۔

Comments are closed.