اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالا اور اس حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا نہ اجازت لی گئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں سرکاری گاڑی تحفے میں لینے سے متعلق کیس میں نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے نواز شریف کی ضمانت اور بیرون ملک جانے کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہوئے ہدایت کی کہ ریکارڈ پیش کیا جائے کہ سابق وزیراعظم ضمانت پر ہیں یا مفرور؟ بظاہر اس عدالت کے فیصلے کی حد تک ملزم اشتہاری ہو چکا ہے۔ عدالت نے حکمنامے میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم نہیں دیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکمنامے میں کہا ہے کہ بتایا گیا کہ وفاقی کابینہ نے نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالا تھا۔ وفاقی حکومت اور نہ ہی نیب نے عدالت کو نواز شریف کی سزا معطلی کے بعد کی صورتحال سے آگاہ کیا، سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی بیرون ملک جانے سے پہلے عدالت سے اجازت نہیں لی اور انکے وکلا درخواست کے قابل سماعت ہونے پر بھی عدالت کو مطمئن نہیں کر سکے۔
عدالت عالیہ نے کہا کہ پنجاب حکومت سے ضمانت میں توسیع نہ ہونے کے بعد نواز شریف کو سرنڈر کرنا تھا۔ نواز شریف پنجاب حکومت کی طرف سے ضمانت میں توسیع نہ کرنے کا حکم چیلنج کر سکتے تھے اور ریلیف کے لیے صرف صاف ہاتھوں کے ساتھ عدالت آ سکتے ہیں۔
قبل ازیں سماعت کے موقع پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم نے پنجاب حکومت کو کہا تھا کہ نواز شریف کی ضمانت میں توسیع پر فیصلہ کریں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کی ضمانت غیر موثر ہو چکی ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر ضمانت منسوخ ہے تو اس پر نواز شریف کا سٹیٹس کیا ہے؟ بظاہر اس عدالت کے فیصلے کی حد تک ملزم اشتہاری ہو چکا ہے۔
نواز شریف کے وکیل جہانگیرجدون نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے ضمانت میں توسیع دی تھی، ابھی حکمنامے کی نقل موجود نہیں ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نواز شریف کی ضمانت ہے یا نہیں؟ پہلے ہمیں یہ واضح کریں۔ کیس پر مزید دلائل کے لیے نواز شریف کے وکلا نے مہلت مانگ لی جبکہ عدالت نے ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت 20 اگست تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed.