جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی ججز کنڈکٹ سے متعلق خبر نشر نہ کرنے سے متعلق پیمرا کے خط پرتنقید

 

اسلام آباد : سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی ججز کنڈکٹ سے متعلق خبر نشر نہ کرنے سے متعلق پیمرا کے خط پرتنقید۔ریمارکس دیئے کہ پیمرا چینلز پر پابندی لگا کر ٹی وی انڈسٹری تباہ کر رہا ہے۔۔ پیمرا کچھ نشر کرنے سے کیسے روک سکتا ہے؟۔۔میڈیا کی آزادی پر پابندی کیسے لگا سکتا ہے؟۔۔۔پیمرا انہی چینلز کے لائسنسوں سے کماتا ہے۔۔جب ٹی وی پر خبریں نہیں چلا سکے گا تو لوگ سوشل میڈیا ہی دیکھیں گے۔۔

میڈیکل طلبا کو حافظ قرآن ہونے پر اضافی 20 نمبر دینے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت۔دوران سماعت جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے پیمرا کی پالیسیوں سے متعلق سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں پیمرا نے ججز سے متعلق کوئی لیٹر ایشو کیا ہے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پیمرا نے اپنے خط میں سیٹلائٹ چینلز کو ججز کے کنڈکٹ اور ریاستی اداروں پر خبر چلانے سے روکا ہے۔۔جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان میں سب آزاد ہیں جس کے دل میں جو آتا ہے وہ کرتا ہے۔تاثر یہ جاتا ہے کہ شاید عدالت نے لوگوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ ریاستی ادارہ نہیں آئینی ریگولیٹری باڈی ہے۔پیمرا نے تو سپریم کورٹ کے اسٹیٹس کو کم کر دیا۔کیا پیمرا نے عدلیہ کا بیڑا اٹھا رکھا ہے؟۔سول جج کو گالیاں دے دی جائیں تو پیمرا نہیں بولتا۔کیا ماتحت عدلیہ کے ججز ہم سے کم تر مخلوق ہیں؟۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ اگر میں اٹارنی جنرل کو کچھ دے ماروں اور کورٹ رپورٹرز خبر دے دیں تو ان کا چینل بند ہو جائے گا؟۔پیمرا کا یہ خط شرعی عدالت میں جائے تو اسلام کے منافی ہونے پر بھی معطل ہو جائے گا۔اگر کوئی جھوٹی خبر دے تو اس کے خلاف پیمرا کارروائی کرے۔پیمرا سیشن،سول ججز یا مجسٹریٹ کیخلاف بولنے پر کیوں ایکشن نہیں لیتا؟۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ برس جنوری میں یہ کیس لگانے کو کہا اور رجسٹرار صاحب نے  مقرر کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔کیا سپریم کورٹ کے جج بن جائو تو کوئی آپ سے پوچھ نہیں سکتا؟۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عدلیہ کا عالمی سطح پر نمبر 140 کے قریب ہے۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمان کا احتساب نہیں ہوتا؟۔۔کیا ججز قابل احتساب نہیں؟۔۔میرے علم کے مطابق ججز کا کوئی احتساب نہیں ہوتا۔۔ججز پر غیر ضروری الزامات لگنے نہیں چاہئیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیس سے متعلق خصوصی بنچ بنانے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے خصوصی بینچ میں کیس سننے سے انکار کر دیا۔

Comments are closed.