اسلام آباد : وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کو دو الگ الگ خطوط لکھ دیئے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے لکھے گئے خط میں استدعا کی گئی ہے کہ چیف جسٹس پاکستان ، سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل کمیشن بنائیں ،ارشد شریف قتل کیس میں کمیشن پانچ سوالات پرغور کرسکتا ہے۔سپریم کورٹ عمران خان پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات کے لیے بھی کمیشن تشکیل دے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ارشد شریف قتل کیس میں کمیشن ان سوالات پر غور کرے کہ ارشد شریف نے اگست 2022 میں بیرون ملک جانے کے لئے کیا طریقہ کار اپنایا؟ ارشد شریف کی بیرون ملک روانگی میں کس نے سہولت کاری کی، کیا کوئی ایجنسی، ادارہ یا انتظامیہ ارشد شریف کوجان کے خطرے سےمتعلق دھمکی سے آگاہ تھی ؟ اگر ایسا تھا تو اس خطرے سے بچاؤ کے لئے کیا اقدامات کئے گئے؟ وہ کیا وجوہات تھیں جن کے باعث ارشد شریف متحدہ عرب امارات سے کینیا گئے؟ فائرنگ کے واقعات کی اصل حقیقت کیا ہے جس میں ارشد شریف کی موت ہوئی؟ کیا ارشد شریف کی موت واقعی غلط شناخت کا معاملہ ہے یا پھر یہ کسی مجرمانہ کھیل کا نتیجہ ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ارشد شریف کے جاں بحق ہونے پر وفاقی حکومت اور ریاستی اداروں پر شکوک وشبہات ظاہر کئے گئے، عوامی اعتماد کی بحالی کے لئے سپریم کورٹ کا کمیشن ضروری ہے،کمیشن ارشد شریف کی پاکستان سے روانگی سے قبل رابطوں کی بھی تحقیقات کرے۔
دوسری جانب عمران خان پر قاتلانہ حملے کے حوالے سے کمیشن تحقیقات کرے کہ لانگ مارچ کارواں کی حفاظت کی ذمہ داری کون سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تھی؟ کیا قافلے کی حفاظت کے لئے مروجہ حفاظتی اقدامات پر عمل کیا گیا؟ایک سے زیادہ شوٹرز کی موجودگی کی اطلاع، جوابی فائرنگ، مجموعی طور پر نشانہ بننے والوں کی تعداد اورزخموں کی نوعیت سے متعلق حقائق کیا ہیں؟ کیاقانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامی حکام نے مروجہ تفتیشی طریقہ کار کو اختیار کیا؟ کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شہادتیں جمع کرنے کے لیے مروجہ طریقہ کار کو اختیار کیا؟کیا یہ قاتلانہ سازش تھی جس کا مقصد واقعی پی ٹی آئی چیئرمین کو قتل کرنا تھا یا یہ محض ایک فرد کا اقدام تھا؟وزیراعظم شہباز شریف نے خط میں مزید کہا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کی میڈیکو لیگل رپورٹ بھی نہیں ہوئی،عمران خان کو ایک پرائیویٹ ہسپتال لیجایا گیا جو قانون کے مطابق میڈیکو لیگل کا پروسیجر نہیں۔ سپریم کورٹ کا کمیشن ذمہ داروں کا تعین کرے اور اصل حقائق سامنے لائے۔
Comments are closed.