اسلام آباد:سپریم کورٹ میں سینیٹ الیکشن سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی ۔ الیکشن کمیشن نے ووٹرز کیلئے ہدایت نامے کی کاپیاں عدالت میں جمع کرادیں ۔اس موقع پر چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ افسوس ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون اپنے ہی میثاق جمہوریت سے پھرگئیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ کابینہ نے بوجھ عدالت پرڈال دیا،عدالت خود کو سیاست سے بالاتررکھے۔۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربینچ نے سماعت کی۔۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے دلائل دیئے کہ ووٹ ڈالنے کا عمل خفیہ ہونا چاہیے،اگررکن اسمبلی پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرتا ہے تواس کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ شفافیت کے لیے ہر چیز خفیہ رکھنا لازمی نہیں،ماضی میں بھی غیر قانونی طریقے سے مینڈیٹ چوری ہوا۔آصف علی زرداری نے اب بھی کہا کہ تمام 10 نشستیں جیتیں گے،،ان کا بیان سیاسی لیکن مینڈیٹ کے برعکس ہے۔ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے علاوہ ہر الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہو گا۔اٹارنی جنرل نے موقف اختیا رکیاکہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے پر کوئی سزا نہیں،جس کو پارٹی کے خلاف ووٹ دینا ہے کھل کر دے،سزا صرف ووٹوں کی خریدوفروخت پرہوسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پیپلز پارٹی ، نون لیگ نے خفیہ طریقے سے سینیٹ الیکشن ختم کرنے کا معاہدہ کیا تھا،لیکن دنوں جماعتیں اب اس پرعمل نہیں کررہیں،اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہو گی یا نہیں،کچھ کہہ نہیں سکتے،آرٹیکل 59 میں خفیہ ووٹنگ کا ذکرنہیں جبکہ آرٹیکل 63 اے کا اطلاق سینٹ انتحابات پرنہیں ہوتا۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 59 اور 226 کو ملا کر پڑھنا ہوگا،خفیہ رائے شماری میں متناسب نمائندگی نہ ہوئی تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ ریفرنس میں اٹھایا گیا سوال ہی غیر مناسب ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کے شواہد کسی کے پاس نہیں،گنتی کے وقت ووٹ کو دیکھا جاتا ہےتاہم ووٹ ڈالنے والے کا علم نہیں ہوتا۔آئین ووٹ ڈالنے والی کی شناحت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔آرٹیکل 226 انتخابات کو خفیہ رکھنے کا پابند کرتا ہے۔ کابینہ نے بوجھ عدالت پرڈال دیا،عدالت خود کو سیاست سے بالاتررکھے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کبھی سینٹ کا الیکشن چیلنج ہوا؟آئین بذات خود بھی ایک سیاسی دستاویز ہے،آئین کی تشریح کرتے وقت عدالت سیاسی کام ہی کررہی ہوتی ہے۔کیا الیکشن رزلٹ کے بعد ووٹ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے؟؟کیا ووٹ کی چھان بین کی جاسکتی ہے کہ یہ قانون کے تحت کاسٹ ہوا یا نہیں۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ بیلٹ پیپر ووٹر کے ہاتھ میں آنے کے بعد اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔پنجاب،سندھ،بلوچستان اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلزکے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے سماعت کل ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کردی۔
Comments are closed.