رانا ثنا کے بیان پر سپریم کورٹ کا پی ٹی آئی کو مزید شواہد لانے کا حکم
اگرریاستی مشینری سے بندے اٹھائے جائیں تو یہ فوجداری جرم ہوگا،تب ہی توہین ہوگی، کسی جرم کو پہلے فرض نہیں کر سکتے،سپریم کورٹ کی آنکھیں کھلی ہیں، جسٹس اعجازالاحسن
اسلام آباد : سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو رانا ثنا اللہ کےخلاف توہین عدالت سے متعلق مزید شواہد عدالتی ریکارڈ پرلانے کا حکم دےدیا۔
دوران سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اگرریاستی مشینری سے بندے اٹھائے جائیں تو یہ فوجداری جرم ہوگا۔تب ہی توہین ہوگی۔ کسی جرم کو پہلے فرض نہیں کر سکتے۔سپریم کورٹ کی آنکھیں کھلی ہیں۔جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کل ہونے والے الیکشن میں مقابلہ سخت ہے۔اس طرح کے سیاسی بیانات دونوں طرف سے دیئے جاتے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ کےخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔وکیل تحریک انصاف فیصل چوہدری نے رانا ثناءاللہ کے بیان کےٹرانسکرپٹ پر دلائل دیئے۔جسٹس منیب اخترکے استفسار پر فیصل چوہدری نے بتایاکہ اصل بیان حلفی لاہور میں ہیں۔۔جس پر جسٹس منیب اختر نے آئی ایم سوری کہتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ہے آپ کوکی بھی علم نہیں۔تینوں بیان حلفی پرعبارت ایک جیسی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ہمارے یکم جولائی کے حکم کی کیا خلاف ورزی ہوئی۔عطا تارڑ اور راحیلہ کیخلاف آپ کی توہین عدالت کی درخواست نہیں۔۔۔فیصل چوہدری نے عدالت سے راحیلہ اور عطا تارڑ کیخلاف سوموٹولینے کی استدعا کی تو جسٹس منیب اختر نے کہاسوموٹو لینا چیف جسٹس کا اختیار ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ٹھوس شواہد آئے تو اس معاملے کو دیکھیں گے۔جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں حمزہ شہباز اور ان کی کابینہ کو وزیراعلی کا انتخاب شفاف طریقے سے کرانے کا کہا۔۔رانا ثنا اللہ حمزہ شہباز کی کابینہ کا حصہ نہیں ہیں۔ماحول الزامات اور جوابی الزامات کی وجہ سے تناو کا شکار ہے۔اس طرح کے سیاسی بیانات دونوں طرف سے دیئے جاتے ہیں۔دونوں اطراف سے شدت ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی تو خاموش نہیں رہیں گے۔انتخابات سے قبل بلند و بانگ دعوے کرنا۔بیانات دینا عام سی بات ہے۔عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی یا قانون سے انحراف پہ آنکھیں بند نہیں کریں گے۔عدالت نے رانا ثناء اللہ کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔
Comments are closed.