اسلام آباد : سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ باجوہ نے کہا ہے کہ فیصلہ ہوگیا تھا کہ شہباز شریف نے 20 مئی کو استعفی دے کر انتخابات کا اعلان کرنا ہے، عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کردیا، لیگی قیادت نے میرے پاس آکر کہا اب ہم عمران خان کابھرپور مقابلہ کریں گے۔
سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ باجوہ نے صحافی شاہد میتلا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جب 10 اپریل کوعمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تواس کے بعد شہباز شریف سے ملنے گیا۔ان سے پوچھا کہ آپ کا حکومت کرنے کا کیا پلان ہے تو شہباز شریف نے کہا کہ دو تین قوانین بنا کر چار چھ ہفتوں میں انتخابات کا اعلان کردیں گے۔میں بھی یہی چاہتا تھاکہ انتخابات ہوں اور اگلی حکومت فریش مینڈیٹ کے ساتھ فیصلے کرے لیکن آئی ایس آئی کے لوگوں کی بات ہوئی تو مولانا فضل رحمان اور آصف علی زرداری دونوں چاہتے تھے حکومت ڈیڑھ سال پورا کرے۔ اس کے علاوہ 10 اپریل کے بعد جنرل فیض نے مجھے مسلسل دو چیزیں کہنا شروع کردی تھیں ایک یہ کہ آپ انتخابات کرواکر جائیں۔دوسرا عمران خان آپ سے ملنا چاہتے ہیں،ان سے ملاقات کرلیں۔
جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ 9 مئی کو شہباز شریف اور ملک احمد خان میرے گھر آئے اور کہا کہ ہم نے انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ملک احمد کہنے لگے کہ میں نے الیکشن کمیشن کے ساتھ بات کی ہے۔ الیکشن کمیشن مردم شماری اور حلقہ بندیاں پانچ اگست تک مکمل کرلے گا۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اگرہم بجٹ نہیں دیتے ہیں تو پانچ ستمبر کو انتخابات کروا دیئے جائیں اور اگر بجٹ پیش کرنا پڑا تو ہم پانچ اکتوبر کو انتخابات کروانے کے لیے تیار ہیں۔ یوں انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ ہوگیا اور پی ٹی آئی کو بھی اس فیصلہ سے آگاہ کر دیا گیا۔پی ٹی آئی کو کہا گیا کہ آپ لانگ مارچ کا اعلان نہ کریں۔اس کے بعدشہباز شریف لندن چلے گئے۔ 19 مئی کو ملک احمد خان میرے گھر دوبارہ آئے انہوں نے بتایا کہ نواز شریف نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم انتخابات کروا رہے ہیں اور کل شہباز شریف استعفیٰ دے دیں گے۔ شہباز شریف نے عرفان صدیقی سے اختتامی تقریر بھی لکھوا لی تھی۔
جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ شہباز شریف نے 20 مئی کو استعفیٰ دینا تھا ۔ابھی ملک احمد خان بیٹھے ہی تھے تو ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم بھی آ گئے. انہوں نے کہا کہ اگر کل شہباز شریف استعفیٰ دیتے ہیں 25 مئی کو قطر میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کون کر ے گا۔حکومت سے درخواست کریں کہ شہباز شریف 10 دن بعد مستعفیٰ ہوں تاکہ آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی ہو جائیں اور نگران سیٹ اپ بنانے کے لیے ہمیں دس دن کا وقت بھی مل جائے۔ملک احمد نے جواب دیا کہ نواز شریف فیصلہ کرچکے ہیں کہ کل شہباز شریف مستعفی ہوں گے تو اس سلسلہ میں ان سے بات نہیں کرسکتا۔بہتر ہے کہ آپ بات کریں یا ڈی جی آئی ایس آئی بات کریں۔ میں نے ڈی جی آئی ایس آئی کو کہا کہ نواز شریف سے درخواست کریں کہ وہ دس دن ہمیں دے دیں۔ڈی جی آئی ایس آئی نے نواز شریف سے بات کی اور ان کو دس دن بعد مستعفیٰ ہونے پر منا لیا۔ یہی بات ڈی جی آئی ایس آئی نے شاہ محمود قریشی ،پرویز خٹک اور اسد عمر کو بتادی اور کہا کہ آپ لانگ مارچ کا اعلان مت کریں لیکن ان تینوں احباب نے کہا کہ عمران خان نہیں مان رہے۔20 مئی کو ملتان میں عمران خان کا جلسہ تھابہر حال انہوں نے لانگ مارچ کا اعلان نہیں کیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے بڑی مشکل سے اعلان کر نے سے روکا۔عمران خان فوری انتخابات کا اعلان چاہتے تھے۔22 مئی کو عمران خان نے پشاور میں پریس کانفرنس رکھ لی۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے پھر شاہ محمود ،اسد عمر اور پرویز خٹک سے بات کی کہ آپ صرف دس دن انتظار کرلیں آئی ایم ایف ساتھ مذاکرات اور نگران سیٹ اپ کے لیے ہمیں دس دن دے دیں۔ پی ٹی آئی قیادت نے کہا عمران خان نہیں مان رہے۔سہ پہر میں عمران خان کی پریس کانفرنس تھی ۔شاہ محمود قریشی بھی ساتھ بیٹھے تھے،میں نے شاہ محمود قریشی کو پیغام بھجوایاکہ آپ عمران خان کو لانگ مارچ کا اعلان کرنے سے روکیں۔ شاہ محمودقریشی نے عمران خان کو بتایا کہ وہ بات کرنا چاہ رہے ہیں لیکن عمران خان نے بات کر نے سے انکار کردیا۔جس کے مناظر ٹی وی سکرین پر دیکھے گئے ۔ میری طرف سے لانگ مارچ رکوانے کی یہ آخری کوشش تھی۔ عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔شام کو لیگی قیادت میرے پاس آئی تو انہوں نے کہا کہ اب ہم عمران خان کابھرپور مقابلہ کریں گے۔میں نے پھر بھی اگلے دن خود شاہ محمود قریشی سے بات کی کہ آپ حکومت کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں لیکن انہوں نے کہا کہ عمران خان نہیں مان رہے وہ فوری شہباز شریف کے استعفیٰ کا اعلان چاہتے ہیں۔
جنرل باجوہ کے پاس اس گفتگو کی آڈیو بھی موجود ہے۔ لانگ مارچ ناکام ہوگیا ۔ لانگ مارچ کے روز میں نے اپناہیلی کاپٹر بھیجا۔جس میں شاہ محمود قریشی ،اسد عمر اور دیگر کو اٹھایا اور راجہ پرویز اشرف کے پاس لے آئےان کے راجہ پرویز اشرف ،ایاز صادق اور دیگر کے ساتھ مذاکرات ہوئے۔
پی ٹی آئی کا یک نکاتی نکتہ تھا کہ انتخابات کی تاریخ دیں۔راجہ پرویز اشرف نے کہا آپ پہلے اسمبلی میں آئیں پھر معاملات آگے بڑھاتے ہیں اس طرح یہ مذاکرات ناکام ہوگئے ۔ لانگ مارچ روکنے کا ساراانتظام رانا ثناء اللہ کا تھا ،ہم مکمل نیوٹرل تھے۔ ہم نے کسی قسم کی مداخلت نہیں کی تھی۔راناثناء اللہ لانگ مارچ روکنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
جنرل ریٹائرڈ باجوہ نے کہا نہیں، بلکل کوئی مداخلت نہیں کی تھی فروری2021 کے بعد کسی ایک انتخابات میں بھی معمولی گڑ بڑ نہیں کی گئی۔آج کل ویسے بھی انتخابات کے دن گڑ بڑ نہیں ہوتی ،انتخابات سے پہلے مینجمنٹ ہوتی ہے۔ عمران خان مقبولیت سے ضمنی انتخابات جیتے۔ن لیگ کے ہارنے کی سب سے بڑی وجہ پی ٹی آئی کے منحرف لوگوں کو ٹکٹس دینا تھیں۔
جنرل باجوہ نے کہا آرٹیکل63 اے کا فیصلہ میں نے نہیں کروایا تھا. عمر عطا بندیال ایک کمزور شخص ہیں دباؤ برداشت نہیں کرسکتے۔جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب ،جسٹس عمر عطا بندیال پر غالب آگئے،یہ فیصلہ ان دونوں نے کروایا۔جسٹس منیب نے فیصلہ لکھا۔ یہ فیصلہ غلط ہے، خلاف آئین ہے. سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی وجہ سے بہت بربادی ہوئی اور ملک میں آج تک عدم استحکام ہے، خاص طور پر پنجاب میں۔ان ججوں کو بھی پتا ہے کہ یہ فیصلہ غلط ہے وہ فیصلہ ریورس بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو سمجھ نہیں آرہی کہ اس کوکس طرح ریورس کریں ۔کچھ ججز پی ٹی آئی کے حامی ہیں۔ججوں کی بیگمات اوران کے خاندان کے دیگر افراد تحریک انصاف کو پسند کرتے ہیں ۔یہ بھی ججوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ہمارے ملک میں جج بہت ڈرپوک ہیں بہت ڈر ڈرکے فیصلے کرتے ہیں، ٹک ٹاک سے ڈر کے فیصلے کرتے ہیں۔تحریک انصاف کے حق میں بھی جج ڈر کے فیصلے دیتے ہیں۔ ٹک ٹاک پہ بے عزتی وائرل ہو تو دباؤبڑھ جا تا ہے۔
جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ایک دن جنرل فیض میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ بنی گالہ کیس میں عمران خان کے کاغذات مکمل نہیں ہیں،وہ نااہل ہوجائیں گے۔تو کیا کِیا جائے؟ جسٹس ثاقب نثار بھی کہتے کہ اگر عمران خان کو نااہل کردیا تو باقی کون بچے گا، ملک بھی تو چلانا ہے۔ میں نے بھی کہا کہ عمران خان کو نااہل کرتے ہیں تو وزیراعظم کون بنے گا۔ عمران خان کی چالیس سال پرانی رسیدیں دستیاب نہیں تھیں،بینکس بند ہوگئے تھے۔عمران خان نااہلی سے بچ گئے۔اس کے بدلے جہانگیر ترین کو نااہل کردیا گیا۔
جنرل باجوہ نے کہا کہ جب حمزہ شہباز وزیراعلی بنے تو میں نے شہباز شریف سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا کہ آپ نے اپنے بیٹے کو ہی وزیراعلی بنادیا آپ کو پارٹی میں کوئی اور بندہ نہیں ملا۔میں نےشہباز شریف کی کافی کلاس لی۔وہ سر جھکا کرسنتے رہے اور کچھ نہیں بولے۔شہباز شریف سے جتنی مرضی سخت بات کرلیں ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔کوئی جواب بھی نہیں دیتے۔ حمزہ شہباز انتہائی نکما ہے۔سلمان شہباز کافی تیز اور باصلاحیت ہے۔شہباز شریف کمزور وزیر اعظم ہیں ، ان سے حکومت نہیں چل رہی نہ وزراء ان کی بات سنتے ہیں،وزراء ان کو گھاس بھی نہیں ڈالتے۔بڑے میاں آئیں گے تو حالات بہتر ہوں گے ۔
جنرل باجوہ نے کہا میں نے جنرل فیض سے پوچھا تھا کہ سلمان شہباز باہر کیسے گیا تو اس نے کہا کہ مجھے بھی نہیں پتا چلا۔ اس کے بعدشہباز شریف کو وزرات عظمیٰ میں مزہ آنے لگا تھا ۔کچھ عرصے بعد جنرل فیض پھر میرے پاس آئے اور کہا کہ عمران خان سے ایک دفعہ مل لیں۔میں نے جنرل فیض کو کہا اچھا انہیں کہیں میرے گھر آجائیں ۔جنرل فیض نے کہا نہیں آپ ایوان صدر میں مل لیں۔صدر عارف علوی بھی مجھے بار بار عمران خان سے ملنے کا کہہ رہے تھے۔میں ایوان صدر چلا گیا تو حیر ان رہ گیا کہ عمران خان مجھ سے بہت اچھے طریقے سے ملے جیسے ان کو مجھ سے کوئی شکائت نہیں اور جیسے کوئی غیر معمولی بات نہ ہوئی ہو۔ میر ا خیال تھا کہ وہ گلہ کریں گےلیکن وہ بالکل نارمل تھے۔میں ان کی منافقت پر حیران تھا کیونکہ وہ عوام میں مجھ پر بھرپور تنقید کرتے تھے۔میں نے کہا آپ مجھے میر جعفر اور میر صادق کہتے ہیں ۔عمران خان صاف مکر گیا کہتا میں نواز اور شہباز کو کہتا ہوں ۔پھر کہتا کہ آپ ان کی حکومت گرادیں ،ان کو گھر بھیج دیں اور انتخابات کر وادیں ۔میں نے کہا کہ آپ تو اسمبلی میں ہی نہیں ہیں۔ حکومت دو سیٹوں پر کھڑی ہے ۔آپ اسمبلی جائیں پھر آپ کو فائدہ ہوگا ۔تو عمران خان کہنے لگے کہ بس آپ حکومت گرادیں اور الیکشن کروائیں تو میں نے عارف علوی کو اندربلا لیا جو اس سے پہلے باہر بیٹھے تھے اور انہیں کہا کہ انہیں سمجھائیں کہ کیسے حکومت گرا سکتے ہیں اور حکومت ختم ہونے کا ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک وہ اسمبلی نہیں جاتے ۔پھر عارف علوی نے بھی ان کو سمجھایا ۔ یہ ملاقات بے نتیجہ رہی۔
جنرل باجوہ نے کہا کہ عمران خان سے جب دوسری ملاقات ہوئی تو میں بڑے غصے میں تھا کیونکہ وہ مسلسل میرے بارے میں جھوٹ بول رہے تھے۔ میں نے عمران خان کو کہا آپ اپنی زبان پر کنٹرول کریں اوراپنے جھوٹوں کو لگام دیں ورنہ میرے پاس بھی کہنے کو بہت کچھ ہے آپ جھوٹ بولنا بند کریں۔عمران خان نے کہا آپ کیا کریں گے؟ میں نے کہا کیا آپ پلے بوائے نہیں رہے؟ آپ کی ویڈیوز بھی موجود ہیں، اگر زبان بند نہ کی تو گلہ نہ کیجئے گا ۔ اس طرح یہ ملاقات بھی تلخی پر ختم ہوگئی۔
Comments are closed.