چیف جسٹس کا ون مین شو اختیار ختم کرنا ہوگا، 2 ججز کا اختلافی فیصلہ

اسلام آباد : سپریم کورٹ کے 2 ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن سے متعلق از خود نوٹس کیس کی درخواستیں مسترد کردیں اور لاہور اور پشاور ہائیکورٹس کو اس حوالے سے زیر التوا درخواستوں پر 3 روز میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا الیکشن کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے لیے جانے والے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کیس کے حوالے سے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا تفصیلی فیصلہ سامنے آگیا۔27 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ از خود نوٹس 4 ججز نے مسترد کیا، آرڈر آف کورٹ 3-4 کا فیصلہ ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کےون مین پاور شو کے اختیار پر نظرثانی کرنا ہوگی۔سپریم کورٹ کو صرف ایک شخص کے فیصلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔وقت آگیاہےکہ چیف جسٹس آفس کا ون مین شو کا لطف اٹھانےکاسلسلہ ختم کیا جائے۔از خود نوٹس کے اختیار کے بارے میں فُل کورٹ کے ذریعے پالیسی بنانا ہوگی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو وسیع اعزازات سے نوازا جاتا ہے، ستم ظریفی ہے کہ سپریم کورٹ قومی اداروں کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی بات کرتی ہے لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتی، سپریم کورٹ اپنے اختیارات کا ڈھانچہ بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ چیف جسٹس کے پاس از خود نوٹس، بینچز کی تشکیل اور مقدمات فِکس کرنے کا اختیار ہے، چیف جسٹس کے پاس بےلگام طاقت ہے جس کا وہ لطف لیتے ہیں، چیف جسٹس کی طاقت کے بےدریغ استعمال سے سپریم کورٹ کا وقار پست اور کڑی تنقید کی زد میں رہا ہے۔ ہم دو ججز کا فیصلہ جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کا ہی تسلسل ہے، کیس میں ایک بار کازلسٹ جاری ہونے کے بعد بینچ تبدیل نہیں ہو سکتا، آئینی ادارے کے ممبران کے طور پر ہمارا ہر عمل تاریخ کا حصہ بنتا اور زیر بحث آتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے فیصلے میں کہا کہ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کو 7 میں سے 4 ججوں نے مسترد کیا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ کے تحریر کردی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یکم مارچ کا الیکشن ازخود نوٹس کیس کا آرڈر آف کورٹ 3-4 کا فیصلہ ہے، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔ فیصلے میں لاہور اور پشاور ہائیکورٹس کو حکم دیا گیا ہے کہ زیرالتوا درخواستوں پر تین روز میں فیصلہ کریں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے میں کہا کہ چیف جسٹس کےون مین پاور شوکے اختیار پر نظرثانی کرناہوگی، سپریم کورٹ کو صرف ایک شخص کےفیصلوں پرنہیں چھوڑا جا سکتا۔اسپیشل بینچ اور آئینی معاملات پر بینچ کی تشکیل کے بارے میں فل کورٹ کے ذریعے پالیسی بنانا ہوگی۔ پاناما کیس میں عدالت کا پہلا حکم 2-3 کے تناسب سے آیا تھا، اختلاف کرنے والے 2ججز نے باقی پاناما کیس نہیں سنا تھا لیکن ان کو بینچ سے الگ نہیں کیا گیا تھا، پاناما نظرثانی کیس بھی پھر ان 2 ججز سمیت 5 رکنی لارجر بینچ نے سنا تھا۔ فیڈرل ازم کا بنیادی اصول صوبائی خودمختاری ہے، ہائیکورٹس صوبائی سطح پر سب سے اعلیٰ آئینی ادارہ ہے، صوبائی معاملات میں سپریم کورٹ کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے، سپریم کورٹ کو ہائیکورٹ کی خودمختاری مجروح نہیں کرنی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کی شدید تقسیم نے ملک میں چارجڈ سیاسی ماحول قائم کر رکھا ہے، چارجڈ سیاسی ماحول میں سپریم کورٹ کا سیاسی جھنڈ میں شامل ہونا تنقید کا ہی باعث بنا، جمہوریت کبھی تقسیم سے خالی نہیں ہوتی، سیاسی سسٹم کا مقصد ہی اس تقسیمی اختلافات کو بات چیت کے ذریعے ختم کرنا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندو خیل کا موقف ، اپنے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ ہم چاروں جج یہ سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ چار تین کا ہے جبکہ دیگر تین جج اس کو تین دو کا فیصلہ سمجھتے ہیں۔ اس اختلاف کی وجہ سے بینچ کے سربراہ فیصلہ جاری نہیں کرپا رہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ چار تین کا فیصلہ جس کے تحت ازخود نوٹس کیس کو مسترد کردیا گیا ہے وہ بائنڈنگ ہے۔ ایک بار بینچ بننے کےبعد چیف جسٹس کسی جج کو بینچ سے نہیں ہٹاسکتا ، الیکشن ازخود نوٹس میں دو ججز درخواستیں مسترد کرنے کا پہلے فیصلہ دے چکے تھے۔

Comments are closed.