اسلام آباد : صدرمملکت عارف علوی نے عدالتی اصلاحات سے متعلق بل نظرثانی کےلئے پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیا۔صدرکا کہنا ہے کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔فورتھ شیڈول کے تحت پارلیمان سپریم کورٹ کےخلاف قانون سازی نہیں کرسکتی۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 دوبارہ پارلیمنٹ آئے گا۔صدر مملکت عارف علوی نے آرٹیکل 75 کے تحت بل کو نظر ثانی کیلئے پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیا۔صدرمملکت کا کہنا ہے کہ بل بنیادی طور پر پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔جو قانونی طورپر مصنوعی اور ناکافی ہونے عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔آئین سپریم کورٹ کو اپیل۔ایڈوائزری۔ریویو اور ابتدائی اختیار سماعت سے نوازتا ہے۔
صدر کے مطابق مجوزہ بل آرٹیکل 184 تین عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت سے متعلق ہے۔جس کا مقصد ابتدائی اختیار سماعت استعمال کرنے اور اپیل کرنے کا طریقہ فراہم کرنا ہے۔صدر کا کہنا ہے کہ آئین قوانین کا باپ ہے۔تسلیم شدہ قانون تو یہ ہے کہ آئینی دفعات میں ایک عام قانون سازی کے ذریعے ترمیم نہیں کی جاسکتی۔آئین کوئی عام قانون نہیں۔بلکہ بنیادی اصولوں، اعلیٰ قانون اور دیگر قوانین سے بالاتر قانون کا مجسمہ ہے۔
صدر مملکت عارف علوی کا کہنا ہے کہ جوزہ بل آرٹیکل 184 تین عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت سے متعلق ہے، بل کا مقصد ابتدائی اختیار سماعت استعمال کرنے اور اپیل کرنے کا طریقہ فراہم کرنا ہے، خیال قابل تعریف ہو سکتا ہے مگر کیا اس مقصد کو آئینی دفعات میں ترمیم کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے؟۔آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی کارروائی اور طریقہ کار ریگولیٹ کرنے کیلئے قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے۔قواعد میں چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کارروائی ، خود مختاری اور آزادی میں مداخلت کے مترادف ہو سکتی ہے۔
صدر کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 67 اور191 سپریم کورٹ اورپارلیمان کو ایک دوسرے کے اختیارمیں مداخلت سے منع کرتے ہیں۔آرٹیکل191 کے تحت سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے باہر رکھا گیا۔۔فورتھ شیڈول کے تحت پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے علاوہ تمام عدالتوں کے دائرہ اختیار اور اختیارات کے حوالے سے قانون سازی کا اختیارہے لہٰذا بل کے ان پہلوئوں پر مناسب غور کرنے کی ضرورت ہے۔
Comments are closed.