اسلام آباد : سپریم کورٹ نے عدالتی اصلاحات کیس میں پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ سیاسی جماعتوں اور وکلا کی تنظیموں کو بھی 8 مئی تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کی گئی۔عدالت نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا فی الوقت مسترد کر دی دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ساسیت نے عدالتی کارروائی کو گندا کر دیا، آزاد عدلیہ آئین کا بنیادی جز ہیں اور یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی ، کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس آنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، ججز نے آنا ہے اور چلے جانا ہے، ججز اور عدلیہ کو احترام نہ دیا گیا تو انصاف کا مطالبہ نہیں ہوگا، عدالت جسٹس مظاہر علی نقوی کو بینچ سے علیحدہ کرنے کی پاکستان بار کونسل کی استدعا کو مسترد کر دیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی لارجر بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف داٸر درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ ایک الگ نوعیت کا کیس ہے۔ میں اس پر اپنے خیالات آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ معاملہ سنجیدگی سے لیا گیا، کروشل گرائونڈز پر لیا گیا۔ ہم نے اس پر ایک لارجر بنچ بنایا ہے ہم چاہتے ہیں کہ ایک شفاف معاونت کی جائے۔ آج جو ہمارے سامنے درخواستیں ہیں وہ تین ہیں۔ہم امید کرتے ہیں کہ اپ سب وکلا اپنے جواب تحریری طور پر جمع کرائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل سے درخواست ہے کہ وہ روسٹرم پر آئیں، جو قانون آیا اس کا مسودہ اور متعلقہ قائمہ کمیٹی کے منٹس پیش کئے جائیں۔مسلم لیگ ن کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین، پیپلز پارٹی نے فاروق ایچ نائیک اور پاکستان بار کونسل کی جانب سے حسن رضا پاشا عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ حکمنامہ عبوری نوعیت کا تھا۔ جمہوریت آئین کے اہم خدوخال میں سے ہے، آزاد عدلیہ اور وفاق بھی آئین کے اہم خدوخال میں سے ہیں، دیکھنا ہے کہ عدلیہ کا جزو تبدیل ہوسکتا ہے؟ عدلیہ کہ آزادی بنیادی حق ہے، عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے یہ مقدمہ منفرد نوعیت کا ہے،مقدمے پر فریقین کے سنجیدہ بحث کی توقع ہے۔ لارجر بنج کو بہترین معاونت فراہم کرنی ہوگی۔پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا قانون ہے، ریاست کے تیسرے ستون کے بارے میں یہ قانون ہے۔
پاکستان بار کونسل نے سات سینیئر ججز پر مشتمل بینچ بنانے کا مطالبہ کیا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون سازی کے اختیار سے متعلق وفاقی فہرست کی کچھ حدود و قیود بھی ہیں، فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے سیکشن 55 کا بھی جائزہ لیں،یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی کہ آذاد عدلیہ آئین کا بنیادی جزو ہے، الزام ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئین کے بنیادی جزو کی قانون سازی کے ذریعے خلاف ورزی کی گئی۔ پاکستان بار کونسل کے وکیل حسن رضا پاشا نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان بار نے ہمیشہ آئین اور عدلیہ کیلئے لڑائی لڑی ہے، مناسب ہوگا اگر اس مقدمے میں فل کورٹ تشکیل دیا جائے، بینچ میں سات سینیئر ترین ججز شامل ہوں تو کوئی اعتراض نہیں کرسکے گا۔ بینچ کے ایک رکن کے خلاف چھ ریفرنس دائر کیے ہوئے ہیں۔
پاکستان بار کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے الگ کرنے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 7 سینیئر ججز اور فل کورٹ بنانا چیف جسٹس کا اختیار ہے،افتخار چوہدری کیس میں عدالت میں قرار دیا ریفرنس صرف صدر مملکت دائر کرسکتے ہیں۔ کسی جج کے خلاف ریفرنس اس کو کام کرنے سے نہیں روک سکتا، سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے آنے تک جج کو کام کرنے سے نہیں روکا جاسکتا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی عدالت نے یہی فیصلہ دیا تھا،شکایات ججز کے خلاف آتی رہتی ہیں، مجھ سمیت سپریم کورٹ کے اکثر ججز کے خلاف شکایات اتی رہتی ہیں، سیاسی معاملات نے عدالت کا ماحول آلودہ کردیا ہے،سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں، انتخابات کے مقدمے میں بھی کچھ ججز کو نکال کر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا،سپریم کورٹ کے ججز کا فیصلہ عدالت کا فیصلہ ہوتا ہے،ہر ادارہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کا پابند ہے۔ پاشا صاحب آپ نفیس آدمی ہیں اپنے راد گرد سے معلوم کرائیں آپ کے لوگ کس کو فل کورٹ کہتے ہیں۔ سپریم کورٹ بار نے ادارے کا تحفظ کرنا ہے۔ ججز نے آنا ہے اور چلے جانا ہے، ججز اور عدلیہ کو احترام نہ دیا گیا تو انصاف کا مطالبہ نہیں ہوگا، جس پر حسن رضا پاشا نے کہا کہ وکلا کے تحفظات سے عدالت کو آگاہ کیا ہے عدالت نے اٹارنی جنرل کی حکم امنتاع واپس لینے کی استدعا مسترد کردی ۔ سپریم کورٹ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا فی الوقت مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت 8 مئی تک ملتوی کر دی گئی۔
Comments are closed.