اسلام آباد : چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے وزارت دفاع کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ انتظامی امور قائمہ کمیٹی کو بھجوانے کی کوئی مثال نہیں ملتی، توقع ہے حکومت اپنے فیصلے رہ نظر ثانی کرے گی، حکومت فیصلہ کرے یا اسمبلی کو واپس بھجوائے جواب دے، اس معاملہ کے نتائج غیر معمولی ہو سکتے ہیں۔ ملاقات میں افسران کو بتایا تھا فیصلہ ہو چکا ہے اب پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ملک بھر میں انتخابات ایک ہی دن کروانے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ وزرات دفاع کی درخواست پر اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور سماعت کا آغاز قرآنی آیات کی تلاوت سے کیا گیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مولا ہمیں ہمت دے کہ ہم صحیح فیصلے کریں اور ہمیں نیک لوگوں میں شامل کرے،جب ہم چلے جائیں تو ہمیں اچھے الفاظ میں یاد کیا جائے۔معاملہ بہت لمبا ہوتا جارہا ہے۔ حکومت نے اپنا ایگزیکٹیو کام پارلیمان کو دیا ہے یا نہیں۔ عدالت کو کہا گیا تھا کہ سپلیمنٹری گرانٹ کے بعد منظوری لی جائے گی،اس کے برعکس معاملہ ہی پارلیمنٹ کو بھجوا دیا گیا،استفسار کیا کہ کیا الیکشن کیلئے ہی ایسا ہوتا ہے یا عام حالات میں بھی ایسا ہوتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے حکومت کو ہدایت جاری کی تھی، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قائمہ کمیٹی میں حکومت کی اکثریت ہے، حکومت کو گرانٹ جاری کرنے سے کرنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟ وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونی چاہیے، مالی معاملات میں تو حکومت کی اکثریت لازمی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قرار داد کی روشنی میں معاملہ پہلے منظوری کیلئے بھیجا۔ جسٹس منیب اخترنے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آئین حکومت کو اختیار دیتا ہے تو اسمبلی قرارداد کیسے پاس کرسکتی ہے؟ کیا حکومت کی بجٹ کے وقت اکثریت نہین ہونی تھی؟ جو بات اپ کر رہے ہیں وہ مشکوک لگ رہی ہے۔وزارت خزانہ کی ٹیم نے بار بار بتایا کہ سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری بعد میں لی جاتی ہے، وزارت خزانہ نے آئین کے آرٹیکل 84 کا حوالہ دیا تھا، کیا قرار داد کی منظوری کے وقت گرانٹ منظوری کے لیے پیش کی گئی تھی،وفاقی حکومت کی اسمبلی میں اکثریت لازمی ہے،حکومت کی گرانٹ اسمبلی سے کیسے مسترد ہو سکتی ہے، کیا آپ کو سپلیمنٹری بجٹ مسترد ہونے کے نتائج کا علم ہے ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس سوال کا جواب دیں پھر آگے چلیں گے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ گرانٹ منظوری کا اصل اختیار پارلیمنٹ کو ہے، اسمبلی پہلے قرارداد کے ذریعے اپنی رائے دے چکی تھی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ حکومت سنجیدہ ہوتی تو کیا سپلیمنٹری گرانٹ منظور نہیں کروا سکتی تھی، وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونا لازمی ہے، اٹارنی جنرل صاحب سمجنے کی کوشش کریں معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہمارا نقطہء نظر سمجھ چکے ہیں، انتظامی امور قائمہ کمیٹی کو بھجوانے کی کوئی مثال نہیں ملتی، انتخابی اخراجات ضرورت نوعیت کے ہیں غیر اہم نہیں، حکومت کا گرانٹ مسترد ہونے کا خدشہ اسمبلی کے وجود کے خلاف ہے،توقع ہے حکومت اپنے فیصلے رہ نظر ثانی کرے گی، حکومت فیصلہ کرے یا اسمبلی کو واپس بھجوائے جواب دے، اس معاملہ کے نتائج غیر معمولی ہو سکتے ہیں، فالحال غیر معمولی نتائج پر نہیں جانا چاہتے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو عدالتی احکامات پہنچا دیں،الیکشن کمیشن کہتا ہے اکتوبر تک الیکشن نہیں ہوسکتے،الیکشن کمیشن نے ایک ساتھ الیکشن کرانے کا بھی کہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی اس بات پر کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی آبزرویشن کی بنیاد سیکیورٹی کی عدم فراہمی ہے، دہشتگردی ملک میں 1992 سے جاری ہے۔ 1987، 1991، 2002، 2008، 2013 اور 2018 میں الیکشن ہوئے۔ سیکیورٹی کے مسائل ان انتخابات میں بھی تھے۔2008 میں تو حالات بہت کشیدہ تھے ،2007 میں بھی تو بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوئی تھی،2013 میں بھی دہشت گردی تھی،اب ایسا کیا منفرد خطرہ ہے جو الیکشن۔ نہیں ہو سکتے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پہلے ایک ساتھ تمام سکیورٹی فورسز نے فرائض سر انجام دئیے تھے،اب دو صوبوں میں الیکشن الگ ہوں گے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا گارنٹی ہے کہ 8 اکتوبر کو حالات ٹھیک ہو جائیں گے،وزارت دفاع نے بھی اندازہ ہی لگایا ہے، حکومت اندازوں پر نہیں چل سکتی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپریشنز میں متعین کردہ ٹارگٹ حاصل کرنے کی پوری کوشش ہے، کسی کو توقع نہیں تھی کہ اسمبلیاں پہلے تحلیل ہو جائیں گی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گزشتہ سال ایک حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، عدالت نوٹس نہ لیتی تو قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی تھی، صوبائی اسمبلیوں کے ہوتے ہوئے قومی اسمبلیوں کے انتخابات بھی ہو ہونے ہی تھے۔آئین میں اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کا وقت مقرر ہے۔ جسٹس اعجاز الاحجسن نے کہا کہ برطانیہ میں جنگ کے دوران بروقت انتخابات ہوئے تھے، بم دھماکوں کے دوران بھی برطانیہ میں انتخابات ہوتے تھے، عدالت کو کہاں اختیار ہے کہ الیکشن اگلے سال کروانے کا کہے؟۔الیکشن کمیشن نے فنڈز اور سیکیورٹی ملنے پر انتخابات کرانے کا کہا تھا، فنڈز کے حوالے سے عدالتی حکم ایک سے دوسرے ادارے کو بھیجا جا رہا ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ 27 مارچ کو عدالتی کارروائی شروع ہوئی 4 اپریل کو فیصلہ آیا،پہلے 4/3 کا معاملہ تھا پھر فل کورٹ کا، بائیکاٹ ہوا لیکن کسی نے سکیورٹی کا مسئلہ نہیں اٹھایا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری درخواست پر ڈی جی ملٹری آپریشنز نے بریفنگ دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکرٹری دفاع بھی موجود تھے، ملاقات میں افسران کو بتایا تھا دوران سماعت یہ معاملہ نہیں اٹھایا گیا،سب کو بتایا کہ فیصلہ ہو چکا ہے اب پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔ الیکشن کمیشن اور وزارت دفاع کی درخواستیں فیصلے واپس لینے کی بنیاد نہیں، الیکشن کمیشن نے پہلے کہا وسائل دیں الیکشن کروالیں گے، اب کہتے ہیں ملک میں انارکی پھیل جائے گی۔ الیکشن کمیشن پورا مقدمہ دوبارہ کھولنا چاہتا ہے۔ وزارت دفاع کی رپورٹ میں عجیب سی استدعا ہے۔ کیا وزارت دفاع ایک ساتھ الیکشن کروانے کی استدعا کرسکتی ہے؟ وزارت دفاع کی درخواست ناقابل سماعت ہے۔ ٹی وی پر سنا ہے وزراء کہتے ہیں اکتوبر میں بھی الیکشن مشکل ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کل بلاول آج وزیراعظم سے ملا تھا، کوشش ہے ملک میں سیاسی ڈائیلاگ شروع ہو، ایک کے علاوہ تمام حکومتی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ ہیں، بلاول آج مولانا فضل الرحمان سے مل کر مذاکرات پر قائل کریں گے،معاملات سلجھ گئے تو شاید اتنی سیکیورٹی کی ضرورت نہ پڑے، تمام سیاسی جماعتیں مذاکرات پر آمادہ ہورہی ہیں، امیر جماعت اسلامی بھی شہباز شریف اور عمران خان سے ملے،دونوں فریقین نے مذاکرات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں، عدالت کچھ مہلت دے تو معاملہ سلجھ سکتا ہے ۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل کی بات میں وزن ہے،منجمد سیاسی نظام چلنا شروع ہو رہا ہے ،14 مئی قریب آ چکا ہے، سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آ جائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے،اس معاملے کو زیادہ طویل نہیں کیا جا سکتا، چیف جسٹس5 دن عید کی چھٹیاں آ گئی ہیں، میرے ساتھی ججز کہتے ہیں 5 دن کا وقت بہت ہے۔ وکیل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد ضروری ہے۔ لوگ کنفیوز اور ٹینشن میں ہیں۔ عوام کو ہیجانی کیفیت سے نکالنے کے لیے درخواست دائر کی ہے، ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہییں،انتخابات الگ الگ ہوئے تو کئی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ صوبوں میں منتخب حکومتیں الیکشن پر اثرانداز ہوں گی،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جب بحث ہورہی تھی تو اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ کیوں نہیں اٹھایا؟اٹارنی جنرل کو نہ جانے کس نے 4/3 پر ذور دینے کا کہا، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کس نے ان کو یہ مؤقف اپنانے سے روکا۔مذاکرات کی بات ہے تو 8 اکتوبر پر ضد نہیں کی جاسکتی، یکطرفہ کچھ نہیں ہوسکتا، سیاسی جماعتوں کو دل بڑا کرنا ہوگا، نوے دن کا وقت 14 اپریل کو گزر چکا ہے۔آئین کے مطابق نوے دن میں انتحابات کرانے لازم ہیں۔اپ کے مطابق یہ سیاسی انصاف کا معاملہ ہے۔ جس میں فیصلے عوام کرے گی۔آپ کی تجویز ہے کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کریں۔ عدالت نے یقین دہانی کرانے کا کہا تو حکومت نے جواب نہیں دیا۔حکومت نے آج پہلی بار مثبت بات کی۔سیاسی جماعتوں کو کل کے لیے نوٹس جاری کررہے ہیں۔نگران حکومت نوے دن سے زیادہ برقرار رہنے پر بھی سوال اٹھتا ہے۔عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چودھری کو روسٹرم پر بلا لیا اور استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی مذاکرات پر آمادہ ہے۔ تاریخ پر جماعتیں مطمئن ہوئیں تو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گا۔ قوم کی تکلیف اور اضطراب کا عالم دیکھیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل ساڑھے گیا تک ملتوی کردی۔
Comments are closed.