توشہ خانہ فوجداری کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے دو گھنٹے تاخیر سے عمران خان کی سزا معطل کرنے کا حکم سنا دیا ہے تاہم تحریری فیصلہ کچھ دیر بعد جاری کیا جائے گا۔
توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کے دلائل مکمل ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے سزا کو معطل کرنے سے متعلق اٹھائے گئے اعتراضات پر دلائل دیے کہ ٹرائل کا فورم درست تھا اور ٹرائل کورٹ ہی مجاز عدالت تھی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے حق دفاع کے نکتے پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کچھ مقدمات میں گواہوں کی فہرست پر اعتراض نہیں اٹھایا جاتا، اگر اعتراض آ جائے تو پھر عدالت نے اس اعتراض پر پہلے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
وکیل نے دلائل میں کہا کہ ٹرائل کورٹ نے دوران سماعت کہا کہ ’یہ انکم ٹیکس ریٹرنز کا کیس نہیں ہے، ٹرائل کورٹ نے فیصلہ دیا کہ جو گواہ دیے گئے ہیں وہ ٹیکس کنسلٹنٹ ہیں، اگر گواہ کیس میں التواء کے لیے پیش کیے جائیں تو عدالت کے پاس مسترد کرنے کا اختیار ہوتا ہے، ٹیکس کنسلٹنٹ اس کیس کے متعلقہ گواہ نہیں ہو سکتے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ توشہ خانہ کیس کی 44 سماعتوں میں چیئرمین پی ٹی آئی صرف چار مرتبہ پیش ہوئے۔
عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے متعدد، سپریم کورٹ سے تین بار رجوع کیا۔ سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کا مرکزی کیس اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں چلایا گیا۔ ذیلی عدالت کے مختلف فیصلے اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج ہوئے۔ جس میں کیس کے قابل سماعت ہونے، ٹرائل روکنے، جج تبدیل کرنے، 342 کا بیان روکنے، حق دفاع ختم کرنے کے خلاف درخواست، ٹرائل پر حکم امتناع کی درخواستیں شامل ہیں۔
توشہ خانہ فوجداری ٹرائل میں سیشن کورٹ سے سزا کے بعد عدالت عالیہ میں سزا کے خلاف اپیل، سزا معطلی کی درخواست، اس کے علاوہ اٹک سے اڈیالہ جیل منتقلی اور جیل میں سہولتوں کی فراہمی سے متعلق درخواست کی گئی۔
ٹرائل کورٹ نے عمران خان کی توشہ خانہ کیس ناقابل سماعت قرار دینے کی درخواست مسترد کی تھی جس کے بعد چار جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی درخواست مسترد کرنے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے معاملہ واپس ٹرائل کورٹ کو بھجوا دیا اور ٹرائل کورٹ کو عمران خان کے وکیل کے دلائل پر دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے فیصلہ سنایا تھا کہ ٹرائل کورٹ 7 دن میں توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ کرے۔
آٹھ جولائی کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس قابل سماعت قرار دے دیا اور 12 جولائی کو گواہان کو شہادتوں کے لیے طلب کرلیا۔
عمران خان نے یہ فیصلہ بھی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جس کی سماعت انیس جولائی کو ہائی کورٹ میں ہوئی۔26 جولائی کو توشہ خانہ فوجداری ٹرائل روکنے کی عمران خان کی درخواست کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی جس کی سماعت جسٹس یحیی آفریدی نے کی اور ٹرائل روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی۔ اس کے اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی درخواستیں خارج کرتے ہوئے توشہ خانہ کیس کو قابل سماعت قرار دے دیا تھا۔
31 جولائی کو عمران خان نے توشہ خانہ کیس میں 342 کا بیان روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دوبارہ اپیل دائر کر دی۔ درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ‘کیس کے دائرہ اختیار’ پر فیصلے تک سیشن عدالت میں ٹرائل روکنے کی استدعا کی گئی۔
یکم اگست کو توشہ خانہ فوجداری کارروائی میں عمران خان کا دفعہ 342 کا بیان ٹرائل کورٹ میں ریکارڈ ہوا۔ جبکہ دو اگست کو سپریم کورٹ کے جسٹس یحیی آفریدی کے سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جب توشہ خانہ کیس میں عمران خان ٹرائل روکنے کی درخواست کی سماعت کی تو عدالت نے توشہ خانہ کیس میں فوری ٹرائل روکنے کی عمران خان کی استدعا مسترد کر دی تھی۔
جسٹس یحیی آفریدی نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث سے کہا تھا کہ ‘آپ کی درخواست غیر موثر ہو چکی تھی، پھر بھی ہم نے سنا اور آرڈر دیا۔ مزید کہا تھا کہ ہم اس وقت ٹرائل کورٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کو فیصلہ کرنے دیں، عدالت اگر آپ کو ریلیف نہیں ملتا تو سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے۔
خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ ’ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کی کارروائی میں حکم امتناع نہیں دیا اس لیے سپریم کورٹ آئے ہیں۔‘ جسٹس یحییٰ آفریدی نے انہیں جواباً کہا تھا کہ ہم نے حکم نامے میں لکھا تھا ہائی کورٹ درخواستوں کو اکٹھا سنے۔ سپریم کورٹ سے حکم لینے کی بجائے ہائی کورٹ کے حکم انتظار کرنا بہتر ہو گا۔
تین اگست کو توشہ خانہ کیس میں دفاع کے گواہوں کو غیر متعلقہ قرار دے کر عمران خان کا حق دفاع ختم کرنے کے ٹرائل کورٹ آرڈر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ جس پر عدالت نے درخواست پر آئندہ ہفتے کے لیے نوٹسز جاری کیے تھے۔
چار اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کیس قابل سماعت قرار دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیشن کورٹ معاملے کو سن کر دوبارہ فیصلہ جاری کرے۔
ہائی کورٹ نے تحریری فیصلے نے میں عمران خان کے وکلا کو حکم دیا تھا کہ ہفتہ 5 اگست کوہونے والی سماعت میں وہ عدالت میں موجود ہوں اور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن کی درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے سے متعلق دلائل دیں۔
عدالت عالیہ نے قرار دیا تھا کہ دوبارہ سماعت میں کیس کے جج ہمایوں دلاور ہی رہیں گے۔ کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔
پانچ اگست ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں صبح سے شروع ہوئی سماعت میں تین بار وقفہ کیا گیا لیکن عمران خان کے وکلا دلائل کے لیے پیش نہ ہوئے۔ عدالت نے فیصلہ مخفوظ کیا اور اسی روز سنا دیا۔
ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ ٹرائل میں چیئرمین پی ٹی آئی کو تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے انہیں ’بدعنوانی‘ کا مرتکب بھی قرار دیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے اس کیس کو ناقابل سماعت قراردینے کی درخواست مستردکرتے ہوئے جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیے کہ ملزم کے خلاف جرم ثابت ہوتا ہے، انہوں نے الیکشن کمیشن میں جھوٹا بیان حلفی جمع کروایا۔
توشہ خانہ کیس میں پانچ اگست کو ہی تیسری بار سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا۔ عمران خان نے توشہ خانہ کیس سے متعلق تیسری بار اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔
عمران خان کی جانب سے دائر درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 4 اگست کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔آٹھ اگست کو عمران خان نے سزا کے خلاف اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے سزا معطل کر کے ضمانت پر رہا کرنے کی متفرق درخواست بھی جمع کرائی۔
نو اگست کواسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا کے خلاف اپیل پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کیا۔ عدالت نے ٹرائل کورٹ سے مقدمے کا مکمل ریکارڈ بھی طلب کیا۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ڈویژن بینچ نے سماعت کی۔ اسی بینچ نے سزا معطلی کی درخواست پر بھی الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کیا تھا۔
نو اگست کو ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی ڈسٹرکٹ جیل اٹک سے اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقلی اور دوران قید جیل میں اے کلاس کی سہولیات فراہم کرنے کی درخواست پر وفاق اور صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کیا جبکہ عمران خان کو جیل مینوئل کے سہولیات فراہمی کی ہدایت کرتے ہوئے آرڈر جاری کیا کہ جیل مینوئل اور جن سہولیات کے چیئرمین پی ٹی آئی حقدار ہیں وہ دی جائیں۔
دس اگست کو چیئرمین پی ٹی آئی کی حق دفاع ختم کرنے کے خلاف درخواست پر بینچ کی عدم دستیابی کے باعث سماعت نا ہو سکی۔
بائیس اگست کو سماعت ہوئی لیکن الیکشن کمیشن نے کچھ وقت طلب کر لیا جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ جیل اٹک کے حکام کو چیئرمین پی ٹی آئی سے سینئر وکلا بابر اعوان اور لطیف کھوسہ کو ملاقات کی اجازت دینے کی ہدایات جاری کیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل کو چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کے خلاف اپیل اور سزا معطلی کی درخواست پر دلائل کے لیے دو ہفتوں کی مہلت دینے کی استدعا مسترد کی اور 24 اگست کو دلائل دینے کی ہدایت کی۔جبکہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 23 اگست کو توشہ خانہ کیس کے فیصلے کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی اور وفاق سے جیل میں عمران خان کی حالت زار سے متعلق رپورٹ طلب کی جبکہ سزا معطلی سے متعلق انہوں نے کہا کہ معاملہ ہائی کورٹ کے پاس ہے تو ہم دیکھیں گے کہ ہائی کورٹ کیا فیصلہ کرے گی۔
عمران خان کے فوجداری کارروائی کا ریفرنس ٹرائل کورٹ میں گزشتہ برس دسمبر میں موصول ہوا۔ الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ ریفرنس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو بھیجوایا تھا جس میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کا حکم دیا تھا۔ توشہ خانہ ریفرنس ٹرائل کورٹ میں الیکشن ایکٹ کے سیکشن 137 ،170 ،167 کے تحت بھجوایا گیا۔ عدالت شکایت منظور کرکے عمران خان پر کرپٹ پریکٹس کا ٹرائل کرے اور عمران خان کو سیکشن 167 اور 173 کے تحت سزا دے۔ ان دفعات کے تحت تین سال جیل کی اور جرمانہ کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
الیکشن کمیشن کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے گزشتہ برس 21 اکتوبر کو عمران خان کے خلاف توشہ خانہ نااہلی ریفرنس کا فیصلہ سنایا تھا جس میں کہا گیا کہ چئیرمین تحریک انصاف عمران خان نے جان بوجھ کر الیکشن ایکٹ 2017 کی خلاف ورزی کی ہے۔ الیکشن کمیشن نے عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا تھا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے غیر واضح بیان جمع کروایا، عمران خان نے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن137 (اثاثوں اور واجبات کی تفصیلات جمع کروانا)، سیکشن167 (کرپٹ پریکٹس) اور سیکشن 173 (جھوٹا بیان اور ڈیکلیریشن جمع کروانا) کی خلاف ورزی کی ہے۔ لہذا وہ الیکشن ایکٹ کی متعلقہ سیکشنز کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہوں نے توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے ہیں۔ لیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی تھی۔
رواں برس چار اگست کو مسلم لیگ ن کے رہنما محسن نواز رانجھا نے حکمران الائنس پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے قانونی ماہرین کے دستخطوں کے ساتھ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ تخائف کی تفصیلات شئیر نہ کرنے پر سپیکر قومی اسمبلی کے پاس آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے تحت ریفرنس دائر کیا۔ ریفرنس میں سرکاری تخائف کو بیرون ملک بیچنے کا الزام بھی لگایا گیا اور تمام دستاویزی ثبوت بھی ریفرنس کے ہمراہ جمع کرائے گئے تھے۔
Comments are closed.