اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آج مشاورت مکمل نہ ہوسکی توکل مناسب حکم جاری کریںگے۔ بعد ازاں فل کورٹ بنچ تشکیل دینے کی درخواست پر فیصلہ کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دیا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے 9مئی سےمتعلق خصوصی عدالتوں کیخلاف درخواستوں پرسماعت کی ۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے فیصل صدیقی کی فل کورٹ کیلئے درخواست ہے۔ایک درخواست خواجہ احمد حسین کی بھی ہے۔فیصل صدیقی کےآنے تک خواجہ احمد حسین کوسن لیتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جواد ایس خواجہ ایک گوشہ نشین آدمی ہیں۔جواد ایس خواجہ کا بے حد احترام کرتے ہیں۔جواد ایس خواجہ اے پولیٹیکل ہیں۔اے پولیٹیکل بہترلفظ نہیں وہ غیرسیاسی ہیں۔ کیا فیصل صدیقی چھپ گئے ہیں؟
اٹارنی جنرل نے زیرحراست 102 افراد کی تفصیلات عدالت پیش کرتے ہوئے بتایا کہ زیرحراست افراد فوجی تنصیبات میں حملوں میں ملوث ہیں۔زیر حراست 7 ملزمان جی ایچ کیوحملے میں ملوث ہیں۔زیرحراست 4 ملزمان نے آرمی انسٹیٹیوٹ پرحملہ کیا۔زیرحراست 28 ملزمان نے کورکمانڈر ہاوس لاہورمیں حملہ کیا۔ملتان سے 5 اور10 ملزمان گوجرانوالہ گریژن حملےمیں ملوث ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئی ایس آئی آفس فیصل آباد8 ملزمان اور5 پی ایف بیس میانوالی حملےمیں ملوث ہیں۔چکدرہ حملے میں 14 ملزمان ملوث ہیں۔پنجاب رجمنٹ سینٹرمردان حملے میں 7 ملزمان نےحملہ کیا۔ایبٹ آباد کے 3 اوربنوں گریژن پر10 ملزمان نے حملے کیے۔گرفتاری سی سی ٹی وی کمیرے اوردیگرشواہد کی بنیاد پرکی گئی۔
جسٹس مظاہر علی نقوی نے استفسار کیا کہ ان 102 افراد کےعلاوہ باقی افراد کوکیوں چھوڑدیا گیا؟ پک اینڈ چوزکی اجازت قانون میں نہیں ہے،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجی تنصیبات حملوں میں صرف 102 افراد کوہی گرفتارکیا گیا۔ گرفتاریوں میں پک اینڈ چوزنہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا 102 گرفتارافراد کےدفاعی تنصیبات حملے کے ڈائریکٹ شواہد ہیں؟۔ کیا ان 102 افراد کا فوجی ٹرائل کیا جائے گا؟کوئی آزاد ادارہ ہونا چاہیے جوجائزہ لے کہ گرفتاریاں ٹھوس وجوہات پرکی گئیں یانہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہےکہ کیاسویلینزکوکمانڈنگ افسرکےحوالے کرنے سے پہلےمجسٹریٹ سےاجازت لی گئی یانہیں، جسٹس یخیی آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا 102 افراد کی حوالگی کی درخواست مجسٹریٹ سےکی گئی تھی؟ جسٹس مظاہر علی نقوی نے استفسار کیا کہ کیس چلانے کے لیےشواہد کےطورپرآپ کے پاس صرف تصاویرہیں؟ عدالت میں ان افراد کیخلاف کیا شواہد پیش کیے جائیں گے؟ بظاہرلگتا ہے ملزمان کیخلاف مواد کےنام صرف فوٹوگراف ہیں،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام ترشواہد عدالت کے سامنے پیش کروں گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے یہ معاملہ نہیں ہے۔فیصل صدیقی صاحب آچکے ہیں ان کوسنیں گے۔
وکیل فیصل صدیقی نے ایک درخواست فل کورٹ کی دی ہے۔وکیل فیصل صدیقی نے عدالت سے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعاکرتے ہوئے کہا کہ پہلے میں واضح کرونگا کہ ہماری درخواست الگ کیوں ہے۔ہم نے فل کورٹ تشکیل دینے می تین وجوہات بیان کیں۔پرویزمشرف بھی فل کورٹ فیصلے کی مخالفت نہ کرسکے۔
جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی نےبھی فل کورٹ تشکیل دینےکی بات کی۔اٹارنی جنرل بتاچکے ہیں کہ کسی شخص کوسزائے موت یا عمر قید نہیں ہوگی۔ اٹارنی جنرل یقین دہانی بھی کروا چکے ہیں کہ عدالت علم میں لائے بغیرٹرائل شروع نہیں ہوگا۔یہ مقدمہ بنیادی حقوق کی وجہ سے بہت اہم ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ کے لیے یہ پہلی درخواست آئی ہے۔ہم باقی درخواست گزاروں کاموقف بھی سننا چاہتے ہیں۔درخواست گزار اعتزاز احسن نے عدالت کو بتایا کہ اس مرحلے پربینچ کی تشکیل کوچیلنج کرنا حیران کن ہے۔ہم سپریم کورٹ کی تکریم کے لیے جیلوں میں گئے۔عدالت نے تمام دستیاب ججوں کو بینچ میں شامل کیا تھا۔دوججوں کے اٹھ جانےکےبعد یہ ایک طرح کافل کورٹ بینچ ہی ہے۔102 افراد کوملٹری کے بجائے جوڈیشل حراست میں رکھا جائے۔
اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے بھی فل کورٹ کا کہا تھا مگر2 ججزبینچ چھوڑگئے۔بنچ کے ایک ایک جج پراعتراض کیا گیا۔ درخواست گزاروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ، وکیل عابد زبیری اور چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے فل کورٹ کی مخالفت کر دی۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں اعتزاز احسن کی حمایت کرتا ہوں کیس کا جلد فیصلہ کیا جائے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آج مشاورت مکمل نہ ہوسکی توکل مناسب حکم جاری کریںگے۔ ممکن ہوا تو پندرہ منٹ میں عدالت فیصلے سے آگاہ کر دے گی۔عدالت نے فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔ بعد ازاں فل کورٹ بنچ تشکیل دینے کی درخواست پر فیصلہ کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دیا۔
Comments are closed.