باہر جو ہورہا ہے، کون آئین پر عمل کرائے گا، چیف جسٹس آف پاکستان

اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حکومت اورتحریک انصاف کوایک بار پھرمذاکرات کا کہہ دیا۔ انتخابات کیس کی سماعت کے دورنا ریمارکس دیئے باہر جو ہورہا ہے۔کون آئین پر عمل کرائے گا۔ملکی اداروں اور اثاثوں کو جلایا جا رہا ہے۔صورتحال کو مزید خراب نہ کریں۔سیاسی معاملات پرکچھ نہیں کہیں گے۔دیکھنا ہے آئین کا تحفظ ہوا یا نہیں۔آئین میں نوے دن ہیں تو نوے ہیں، 14 مئی کا حکم تھا تو14 مئی کوہ عمل ہونا تھا۔

پنجاب میں انتخابات کرانے کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست۔۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بنچ نے سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے فنڈز اور سیکیورٹی کا مسئلہ پہلے بتایا۔آج تو سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھا دیا۔۔ہم تمام فریقین کو سنیں گے۔حکومت نے الیکشن کمیشن کی طرح کی باتیں کیں لیکن عدالت سے رجوع نہیں کیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج دیکھ لیں وفاقی حکومت بے بس ہے۔۔لوگ گیٹ پھلانگ رہے ہیں۔چار پانچ دنوں سے  جو ہو رہا ہے اسے بھی دیکھیں۔۔۔ہم اس ملک میں امن چاہتے ہیں۔ میرے اوربرادر ججز کے خیال میں اس وقت لوگوں کی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ادارے سیریس تھریٹس کے اندر ہیں۔مشورہ ہے پر امن ماحول کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔مشکل حالات میں اللہ پاک صبر کی تلقین کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنا فیصلہ دے چکی ہے۔نظر ثانی کی گنجائش آئین میں دی گئی ہے۔آئین ہی جمہوریت کی بنیاد ہے۔انتحابات جمہوریت کی بنیاد ہیں۔فروری میں جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تھی تو اس وقت ایک پہلو تھا جس کی خلاف ورزی ہورہی تھی۔ لیکن اب حالات مختلف ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں نے لوگوں کو گولیاں لگنے کی ویڈیوز بھی دیکھی ہیں۔۔لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ ضروری ہے۔ایگزیکٹو اور اپوزیشن اخلاقیات کا اعلیً معیار برقرار رکھیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین پر عملدرآمد لازمی ہے۔اس ماحول میں آئین پر عملدرآمد کیسے کرایا جائے؟۔مذاکرات کا عمل دوبارہ دیکھیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ آئین میں موجود بنیادی حقوق پر کیسے عمل ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہاں عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے بیٹھے ہیں۔ ان کےحقوق کا تحفظ پوگا تو لوگ خوشحال ہونگے۔میں نے کل دیکھا کہ موٹروے خالی پڑے ہیں۔معیشت منجمد ہے۔کاروبار کا پہیہ رک گیا۔اس صورتحال میں لوگوں کا نقصان ہورہا ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت گیند آپ کے کورٹ میں ہے۔آپ مذاکرات دوبارہ کیوں شروع نہیں کر اسکتے۔آپ کو آگے آنا ہوگا اپنے موکل کو بتادیں۔۔۔علی ظفرآپ اپنی قیادت کو بتائیں کہ پولورائز سوسائٹی میں کیسے انتخابات ہونگے۔سب کو ہائی مورال گرائونڈ کو پیدا کرنا ہوگا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ باہر شدید پرتشدد ماحول ہے۔اگر تفریق زدہ معاشرہ ہوگا تو انتخابات کے نتائج کون قبول کرے گا؟۔جو بیانیہ دونوں جانب سے بنایا جا رہا ہے اس کو حل کریں۔آپ کی سب سے بڑی دشمن آپ کی زبان ہوتی ہے جو الفاظ بولتی ہے۔دونوں جانب میچور سیاسی جماعتیں ہیں۔اخلاقیات کے اعلی معیار کو قائم کیا جائے۔عدالت کو اپنے کنڈکٹ پر مطمئن کریں۔امید کرتے ہیں مذاکرات دوبارہ شروع ہونگے اور کوئی حل نکل آئے گا۔۔

Comments are closed.