ارشد شریف قتل کیس میں چیف جسٹس سماعت سے اٹھ کر کیوں گئے؟

اسلام آباد : چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے صحافی ارشد شریف قتل کیس کی سماعت کے دوران دلائل کیلئے وقت اٹارنی جنرل آف پاکستان ہی کو دیا اور بظاہر یہی معلوم ہو رہا تھا کہ وہ ارشد شریف  مرحوم کی والدہ کے وکیل شوکت عزیز صدیقی کو سننا ہی نہیں چاہتے، جس سے آج کی سماعت کے دوران ماحول میں تلخی پیدا ہوئی، تھوڑی دیر کیلئے آوازیں بھی قدرے بلند ہوئیں اور سماعت ختم ہوگئی۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان سے اس معاملے میں حکومتی پیش رفت سے آگاہی کے بعد عدالت نے جولائی کی تاریخ بھی دے دی اور عدالتی اہلکار ججز کی کرسیوں کے پیچھے آ کر کھڑے ہو گئے جو عدالتی کارروائی میں واضح اشارہ ہوتا ہے کہ اب ججز عدالت سے اٹھ کر واپس چیمبر میں جائیں گے، لیکن ایسے میں شوکت عزیز صدیقی ایڈووکیٹ نے قدرے بلند آواز میں عدالت سے استدعا کی کہ وہ ان کی گزارشات بھی سنیں جبکہ ججز ان کو نہ سننے پر مصر تھے۔

اس سے قبل عدالت نے اٹارنی جنرل کے دلائل کے بعد ہی مقدمے کی سماعت ختم کر دی تھی اور شوکت عزیز صدیقی کو دلائل کے لئے روسٹرم پر آنے کی دعوت ہی نہیں دی۔ جب شوکت عزیز صدیقی ایڈووکیٹ نے قدرے بلند آواز میں ججز سے سماعت کی درخواست کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اس حوالے سے آپ کی درخواست ہمارے پاس موجود ہی نہیں۔ اس پر شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ میری درخواست موجود ہے آپ مجھے بات کرنے کا موقع تو دیں، انہوں نے عدالت کے سامنے کہا کہ کینیا اور متحدہ عرب امارات میں اس مقدمے کے بارے میں تو جو پیش رفت ہو رہی ہے سو ہو رہی ہے لیکن ایک پیش رفت پاکستان میں بھی ہو رہی ہے۔ یہاں کئی لوگ دعوے کرتے ہیں کہ وہ اس قتل کے حقائق سے واقف ہیں اور ایک لانگ مارچ بھی کیا گیا جو وزیر آباد پر ختم ہوا۔

شوکت عزیز صدیقی کے دلائل کے دوران جج صاحبان مسلسل انہیں مزید گفتگو سے منع کرتے رہے اور اس دوران شوکت عزیز صدیقی کی آواز بھی قدرے بلند ہو گئی، انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کی والدہ نے درخواست کی ہے کہ پانچ لوگ عمران خان، عمران ریاض، مراد سعید، سلمان اقبال اور فیصل واؤڈا کے بیانات قلمبند کئے جائیں۔ کیونکہ ان لوگوں نے سوشل میڈیا پر دعوے کئے تھے کہ یہ اس مقدمے کے حقائق سے آگاہ ہیں اس لئے ان کے بیانات قلمبند ہونے چاہیئں۔اس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ اس مقدمے کی تفتیش تو نہیں کر سکتے لیکن اگر ارشد شریف کی والدہ کے وکیل آپ کو کوئی درخواست دیں تو اس پر غور کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تو صرف اس مقدمے کی تفتیش کے عمل کی سہولتکاری کر رہے ہیں اور کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہے۔ اس پر شوکت عزیز صدیقی ایڈووکیٹ نے ایک بار پھر زور دے کر کہا کہ میں اس مقدمے میں آپ کا حکمنامہ پڑھنا چاہوں گا لیکن عدالت نے ان کو ایسا کرنے سے منع کر دیا۔

شوکت عزیز صدیقی نے کہا پانچ لوگوں کے بیانات دفعہ 161 کے تحت ریکارڈ ہونے چاہیئں، انہوں نے کہا یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ ارشد شریف کے خاندان کے کسی فرد کی جانب سے لیک کی گئی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ اس معاملے کی تحقیقاتی یا فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ مراد سعید نے لیک کی ہے۔  اس پر چیف جسٹس بولے کہ جس نے بھی لیک کی اس سے اس مقدمے کو نقصان ہوا ہے۔ بحرحال ہم اٹارنی جنرل اور تفتیشی افسر سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کی درخواست وصول کر کے اگر اس پر کوئی کاروائی بنتی ہے تو کرے، اس پر شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ یہی بات آپ آرڈر میں لکھوا دیں لیکن چیف جسٹس نے کہا ہم اس کو آرڈر میں نہیں لکھوائیں گے اور اسی گرما گرمی کے ماحول میں عدالت برخاست ہو گئی اور بینچ اٹھ کر واپس چلا گیا۔

Comments are closed.