نئی دہلی: بھارت کی سب سے بڑی عدالت نے بھی انتہاء پسند ہندوؤں کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے انصاف کا خون کر دیا، بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی حکومت کو 3 سے 4 ماہ کے اندر زمین کو مندر کی تعمیر کے لئے ہندووں کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق چیف جسٹس رنجن گوگئی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے کئی دہائیوں سے زیر التواء بابری مسجد سے متعلق کیس کا فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے سُنی سینٹرل وقف بورڈ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بابری مسجد مندر کو گرا کر تعمیر کی گئَی جب کہ الہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے متنازعہ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ غلط تھا۔
بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس راجن گوگوئی نے کہا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ 1856 سے پہلے اس سر زمین پر کبھی نماز بھی ادا کی گئی ہو جب کہ بابری مسجد جس ڈھانچے پر تعمیر کی گئی اسکا کوئی اسلامی پس منظر نہیں ہے۔ کیس کا فیصلہ ایمان اور یقین پر نہیں بلکہ دعووں پر کیا جاسکتا ہے جب کہ تاریخی بیانات ہندوؤں کے اس عقیدے کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آیودھیا رام کی جائے پیدائش تھی۔
بھارتی چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندو رام چبوترہ، سیتا راسوئی کی پوجا کرتے تھے، ریکارڈ میں موجود شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ متنازعہ اراضی ہندوؤں کی ملکیت تھی۔
’’ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ 1856 سے پہلے اس سر زمین پر کبھی نماز بھی ادا کی گئی ہو جب کہ بابری مسجد جس ڈھانچے پر تعمیر کی گئی اسکا کوئی اسلامی پس منظر نہیں ہے۔ کیس کا فیصلہ ایمان اور یقین پر نہیں بلکہ دعووں پر کیا جاسکتا ہے جب کہ تاریخی بیانات ہندوؤں کے اس عقیدے کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آیودھیا رام کی جائے پیدائش تھی‘‘۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس عدالت کو تمام عقائد کو قبول کرنا اور توازن برقرار رکھنا چاہئے۔ ہندوآیودھیا کو رام کی جائے پیدائش سمجھتے ہیں، ان کے مذہبی جذبات ہیں، مسلمان اسے بابری مسجد کہتے ہیں۔ ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ کہ بھگوان رام کی پیدائش یہاں ہوئی ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ مسجد کی تعمیر کیلئے مسلمانوں کو ایودھیا ہی میں 5 ایکڑ کی زمین متبادل کے طور پر دی جائے گی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو حکم دیا ہے کہ علاقے میں اعتماد کی فضا قائم کر کے 3 سے 4 ماہ کے اندر اسکیم تشکیل دے کر زمین کو مندر کی تعمیر کے لئے ہندووں کے حوالے کرے۔
بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بابر مسجد کیس کے فیصلے کا وقت نہایت اہم ہے، کیونکہ اس دن پاکستان نے کرتاپور راہداری کھول کر کروڑوں سکھوں کو انمول تحفہ دیا جب کہ بھارت کی سب سے بڑی عدالت کی جانب سے اس اہم دن کے موقع پر کئی دہائیوں سے زیر التواء مقدمے کے فیصلے کی تاریخ مقرر کرنا اور مسلمانوں کے خلاف فیصلہ جاری کیا جانا محض اتفاق نہیں ہے۔
اس سے قبل بھارتی سپریم کورٹ نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان بابری مسجد اور رام مندر کی زمین کا عدالت سے باہر تنازع حل کرنے کے لیے مسلم جج ایف ایم خلیف اللہ کی سربراہی میں ایک ثالثی ٹیم تشکیل دی تھی، ٹیم میں ٹیم میں ہندوؤں کے روحانی گرو شری شری روی شنکر اور سینیئر وکیل شری رام پانچو بھی شامل تھے۔ تاہم یہ کمیٹی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی تھی۔
بابری مسجد کو 1528 میں مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر نے تعمیر کرایا تھا اور اسی نسبت سے اسے بابری مسجد کہا جاتا ہے تاہم 1949 میں ہندوؤں نے بابری مسجد سے مورتیاں برآمد ہونے کا دعویٰ کرکے اسے رام کی جنم بھومی قرار دے دیا تھا جس کے بعد یہ معاملہ مختلف عدالتوں، کمیٹیوں اور کمیشن سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ پہنچا تھا
ماضی میں الہ آباد ہائیکورٹ نے بابری مسجد کیس میں اپنا فیصلہ 30 ستمبر 2010 کو سنایا تھا۔ اس میں تین ججوں نے حکم دیا تھا کہ ایودھیا کی دو اعشاریہ 77 ایکڑ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ اس میں سے ایک تہائی زمین رام لیلا مندر کے پاس جائے گی جس کی نمائندگی ہندو مہاسبھا کرتی ہے، ایک تہائی سُنّی وقف بورڈ کو جائے جبکہ باقی کی ایک تہائی زمین نرموہی اکھاڑے کو ملے گی۔
واضح رہے کہ بابری مسجد کو 1528 میں مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر نے تعمیر کرایا تھا اور اسی نسبت سے اسے بابری مسجد کہا جاتا ہے تاہم 1949 میں ہندوؤں نے بابری مسجد سے مورتیاں برآمد ہونے کا دعویٰ کرکے اسے رام کی جنم بھومی قرار دے دیا تھا جس کے بعد یہ معاملہ مختلف عدالتوں، کمیٹیوں اور کمیشن سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ پہنچا تھا جس کے تین بنیادی فریق نرموہی اکھاڑا، رام لیلا اور سنی وقف بورڈ تھے۔
Comments are closed.